جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کم وقت میں طویل سفر طے کیا: وائس چانسلر نجمہ اختر

29 اکتوبر 2020 کو جامعہ نے اپنے 100 سال پورے کر لیے۔ اس موقع پر جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے کہا کہ جو سفر یونیورسٹیاں کئی سو سال میں پورا کرتی ہیں، اسے جامعہ نے 100 سال میں ہی پورا کر لیا۔

تصویر jmi.ac.in
تصویر jmi.ac.in
user

تنویر احمد

جامعہ ملیہ اسلامیہ نے آج اپنے قیام کے 100 سال مکمل کر لیے اور اس 100 سال میں جو کامیابی جامعہ نے حاصل کی، وہ دنیا کے سامنے ایک روشن مثال ہے۔ محمد علی جوہر، شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مختار احمد انصاری، محمود الحسن، عبدالمجید خواجہ، عابد حسین، حکیم اجمل خان... وغیرہ ناموں کا ایک طویل سلسلہ ہے جنھوں نے اپنی کاوشوں اور مشقتوں سے ایک ایسی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جس نے نہ صرف مسلم طبقہ میں تعلیم کی شمع روشن کی، بلکہ ملک کی آزادی و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

29 اکتوبر 1920 میں قائم کردہ اس یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب بھلے ہی کورونا وبا کی وجہ سے بہت عظیم الشان نہیں ہو سکی، لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے کچھ اہم تقریبات کا انعقاد کووڈ ضابطوں اور سماجی فاصلہ کا خیال رکھتے ہوئے عمل میں ضرور آیا جس نے موجودہ دور میں یونیورسٹی کی اہمیت و افادیت کو ظاہر کیا۔ جامعہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے اس تعلق سے 'قومی آواز' کو بتایا کہ "جامعہ کے ذریعہ بہت معیاری صد سالہ پروگرام منعقد کیا گیا ہے۔ کورونا کی وجہ سے طلبا اور مہمانان سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ ساتھ ماسک پہنے ہوئے بھی نظر آئے، لیکن پروگرام بہت شاندار رہا۔ مارچ پاسٹ اور گارڈ آف آنر وغیرہ بہت منظم طریقے سے عمل میں آیا۔"


جامعہ کی روشن تاریخ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر نجمہ اختر نے کہا کہ "جامعہ ملیہ اسلامیہ کی خوبی یہ ہے کہ اس نے کم وقت میں کافی طویل سفر طے کیا۔ جس سفر کو طے کرنے میں یونیورسٹیاں کئی سو سال لگاتی ہیں، وہ سفر جامعہ نے اپنے 100 سال کی تاریخ میں ہی مکمل کر لیا۔ اس کے لیے تعریف کرنی ہوگی جامعہ کے مخلص بانیان اور پھر اس کارواں سے جڑے ہر اس فرد کی جنھوں نے مشکل وقت میں بھی ہمت نہیں ہاری اور تعلیم کا چراغ جلاتے چلے گئے۔" انھوں نے مزید کہا کہ "جامعہ دراصل نیک نیت لوگوں کی اجتماعی کوشش کا نتیجہ ہے، یہ کسی فرد واحد کی کوشش نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اس کارواں کو آگے بڑھایا وہ تعلیم یافتہ، بیدار، ذہین اور باشعور تھے اور اب ہماری ذمہ داری ہے کہ موجودہ دور کی ضرورتوں کے مطابق جامعہ کا سفر آگے بڑھائیں۔"

جامعہ کے پرانے دور اور موجودہ دور کے فرق سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وائس چانسلر نے بتایا کہ "دنیا کی ضرورتیں جیسے جیسے بدل رہی ہیں، ویسے ویسے جامعہ کو بھی بدلنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ آج ہم پہلے کے مقابلے زیادہ منظم اور تکنیکی طور پر مضبوط ہو گئے ہیں۔ مختلف شعبوں میں جامعہ کی بہترین کارکردگی اس کا ثبوت ہے۔" پروفیسر نجمہ اختر نے کورونا کے دور میں جامعہ کے تعلیمی نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "آن لائن تعلیم نے ہمارے لیے چیزیں آسان کر دیں۔ اگر فوری طور پر طلبا کو آن لائن ایجوکیشن دینے کا فیصلہ نہیں لیا جاتا تو ہمارا سیشن خراب ہو جاتا۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے یہاں باصلاحیت اور تربیت یافتہ اساتذہ ہیں۔ میں نے جب ان سے کہا کہ بچوں کو آن لائن تعلیم دیں، تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ انھیں اس کی جانکاری نہیں۔ مجھے ان اساتذہ پر فخر ہے جو اپنی ذمہ داریاں نبھانا جانتے ہیں۔"


'قومی آواز' سے خصوصی بات چیت کے دوران نجمہ اختر نے جامعہ ہمدرد اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اشتراک سے ایک ہیلتھ کیئر ایجوکیشن منصوبہ پر کام کرنے کا بھی تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ جامعہ ہمدرد کے چانسلر سے جب ہیلتھ کیئر ایجوکیشن کے اوپر کام کرنے کے لیے خواہش ظاہر کی تو انھوں نے کہا کہ ہم بھی کرنا چاہتے ہیں۔ نجمہ اختر نے کہا کہ "جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد کے اشتراک سے مستقبل میں ہیلتھ کیئر ایجوکیشن پر کام ہوگا۔ اُن کے پاس سسٹم ہے، لیکن ہمارے پاس سب کچھ بکھرا ہوا ہے جسے منظم کرنا ہوگا۔ اس وقت ہیلتھ کیئر ایجوکیشن کی اہمیت بہت واضح ہے اس لیے ہم نے میڈیکل کالج سے ہٹ کر ہیلتھ کیئر ایجوکیشن پر توجہ دینا شروع کیا ہے۔ دونوں یونیورسٹیاں مشترکہ طور پر اسپتال کے قیام پر بھی غور کریں گی۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */