’مسجد کا دروازہ تو دوبارہ بن جائے گا، لیکن جو بھروسہ ٹوٹا ہے اس کی مرمت نہیں ہو سکے گی‘

جہانگیر پوری میں غیر قانونی تعمیرات پر نہیں بلکہ اس بھروسے پر بلڈوزر چلایا گیا جو دونوں طبقات کے درمیان طویل مدت سے قائم تھا، علاقے میں رہنے والے دونوں طبقات ایم سی ڈی کی کارروائی سے افسردہ ہیں۔

مسجد جہانگیر پوری، تصویر ویپن
مسجد جہانگیر پوری، تصویر ویپن
user

وشو دیپک

’’مسجد کے دروازے اور دیوار تو دوبارہ بن جائیں گے، لیکن دونوں طبقات کے درمیان بھروسے کی جو دیوار 20 اپریل کو منہدم کر دی گئی، اس کی نہ تو مرمت ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسے دوبارہ بنایا جا سکتا ہے...۔‘‘ یہ کہنا ہے مسجد کی باؤنڈری سے ملحق دکان چلانے والے 50 سالہ شخص کے بھتیجے کا، جس کی دکان کو مسجد کے دروازے کے ساتھ ہی بی جے پی حکمراں ایم سی ڈی کے بلڈوزروں نے بدھ کو جہانگیر پوری میں منہدم کر دیا۔

ابھی 5 دن پہلے شمال مغربی دہلی کا جہانگیر پوری علاقہ فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں لپٹا ہوا تھا۔ 16 اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر نکالی گئی شوبھا یاترا کے دوران دونوں طبقات مسجد کے سامنے ڈی جے بجانے اور نعرہ لگانے پر ناراض ہو گئے تھے۔ دونوں طرف سے پتھراؤ ہوا تھا اور کئی پولیس والوں سمیت کچھ لوگ بھی زخمی ہوئے تھے۔ اسی دوران کچھ گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ حالات پر قابو پانے میں پولیس کے بھی پسینے چھوٹ گئے تھے۔ کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور کچھ پر این ایس اے بھی لگایا گیا ہے۔ حالات اس وقت قابو میں ضرور ہیں لیکن کشیدگی برقرار ہے۔


مندر کو چھوا تک نہیں

منگل کی دیر شب اچانک شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) نے اسی فساد زدہ علاقے میں 20 اور 21 اپریل کو تجاوزات ہٹاؤ مہم چلانے کا اعلان کر دیا۔ بدھ اور جمعرات کو یہاں تجاوزات ہٹانے کے لیے بلڈوزر چلائے جائیں گے، اس کی جانکاری لوگوں کو تب ہوئی جب منگل کی دیر شب ایم سی ڈی نے دہلی پولیس سے 400 جوانوں کا مطالبہ کیا۔

علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں تجاوزات ہٹانے سے پہلے کسی قسم کا نوٹس نہیں دیا گیا اور بدھ کی صبح 9 بجتے ہی ایم سی ڈی کے افسر کثیر تعداد میں پولیس جوانوں اور بلڈوزروں کے ساتھ جہانگیر پوری پہنچ گئے اور توڑ پھوڑ کی کارروائی شروع کر دی۔

بلڈوزروں نے سی بلاک واقع مسجد کو نشانہ بنایا اور اس کا دروازہ اور اس کے ساتھ لگی دکانوں کو منہدم کر دیا۔ لیکن محض 100 میٹر کی دوری پر بنے مندر اور اس سے لگی دکانوں کو چھوا تک نہیں گیا۔ مقامی لوگوں نے ای ایم سی ڈی کی اس یکطرفہ کارروائی پر سوال بھی اٹھائے لیکن انھیں موقع سے ہٹا دیا گیا۔


قصداً کی گئی یکطرفہ کارروائی

علاقے میں رہنے والے مسلم طبقات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد کو قصداً نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 10.30 بجے تک سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا تھا کہ اس کارروائی کو روک دیا جائے، لیکن توڑ پھوڑ جاری رہی۔ موقع پر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے افسران سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کی کہ سپریم کورٹ نے اس سب پر روک لگا دی ہے، لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی۔

اسی علاقے میں آشو کی دکان تھی۔ اس نے بتایا کہ ’’جب ہم نے ٹی وی پر دیکھا کہ سپریم کورٹ نے کارروائی پر روک لگا دی ہے تو ہم بلڈوزروں کی طرف دوڑے اور پولیس کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے روک لگا دی ہے۔ لیکن کسی نے ہماری بات سنی ہی نہیں۔‘‘ آشو کی دکان مسجد کی دیوار سے لگی ہوئی تھی جسے ایم سی ڈی نے توڑ دیا۔

آشو کے برابر میں ہی روزمرہ کی ضرورتوں کا سامان فروخت کرنے والے ایک مسلم دکاندار نے بتایا کہ اس کی دکان بھی توڑ دی گئی۔ اس نے کہا کہ ’’صبح سے دل جل رہا ہے۔ ہمیں کسی مندر سے کوئی شکایت نہیں ہے، لیکن ہمارے ساتھ بھی برابری کا سلوک ہونا چاہیے تھا۔‘‘


ہمیں ہماری اوقات بتا دی گئی

اپنی ٹوٹی ہوئی دکان میں سامان تلاشتے ہوئے تقریباً 50 سالہ اس دکاندار نے کہا کہ ’’اللہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا ہے۔ لیکن مسجد کا دروازہ توڑ کر ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ اس ملک میں ہماری کیا اوقات ہے۔‘‘

مسجد کے ٹھیک پیچھے والی گلی نمبر ایک کو گوشت والی گلی کی شکل میں جانا جاتا ہے، کیونکہ یہاں گوشت کی کئی دکانیں ہیں۔ لیکن بدھ کے روز سب بند تھیں اور گلی میں ایک عجیب سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایک گھر کے چھجے کے نیچے کچھ نوجوان بیٹھے ملے۔ انھوں نے جو بتایا وہ علاقے کے تنوع اور اصلی ہندوستان کی تصویر بیان کرتا ہے۔ وہیں بیٹھے عمران نے اپنی میٹ شاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ’’یہ گوشت کی میری دکان ہے، لیکن میری دکان کے ٹھیک اوپر ایک ہندو فیملی کا مکان ہے۔ یہاں ایسے کئی مکان مل جائیں گے جس میں الگ الگ منزل پر ہندو-مسلم ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔‘‘


ایک ساتھ رہتے آئے ہیں ہندو-مسلم

عمران کے دوست نے بتایا کہ اس گلی میں ہندو-مسلم زمانے سے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں دیوالی اور عید یکساں جوش کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ لیکن ہنومان جینتی کے بعد سے حالات بدل گئے ہیں۔ عمران نے بتایا کہ علاقے کے ’سی‘، ’ڈی‘ اور ’جی‘ بلاک میں بہار اور مغربی بنگال سے آئے پناہ گزیں کافی وقت سے رہتے ہیں۔ عمران اور اس کے دوست کو لگتا ہے کہ حکومتی ایجنسیاں مذہب کی بنیاد پر کارروائی کر رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔