لوک سبھا میں ’وندے ماترم‘ کی تشریح کر کے اقرا حسن نے حکومت پر کئے زوردار حملے

اقرا حسن نے کہا کہ ’وندے ماترم‘ کے کن الفاظ کو اپنایا جائے اس کا فیصلہ سبھاش چندر بوس اور گرو رابندر ناتھ ٹیگور کی مشاورت سے کیا گیا تھا، کیا اب ہم ان عظیم رہنماؤں کی دانشمندی پر سوال اٹھائیں گے؟

<div class="paragraphs"><p>اقرا حسن / تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

پارلیمنٹ کے رواں سرمائی اجلاس کے دوران پیر کے روز لوک سبھا میں ’وندے ماترم‘ کی 150ویں سالگرہ پر بحث ہوئی، جس میں اتر پردیش کے کیرانہ سے سماجوادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقرا حسن نے بھی حصہ لیا۔ انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار انتہائی واضح انداز میں سبھی کے سامنے رکھا۔ ’وندے ماترم‘ کا مطلب سمجھاتے ہوئے اقرا حسن نے حکومت پر زوردار حملہ کیا اور کہا کہ آج ہمیں قومی گیت کی روح کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ گیت ملک کی فطرت کی تعریف کرتا ہے۔

خاتون رکن پارلیمنٹ نے ’وندے ماترم‘ کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر بھی سوال اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ ہم ہندوستانی مسلمان اپنی پسند سے ہندوستانی ہیں، اتفاق سے نہیں۔ ’وندے ماترم‘ کے کن الفاظ  کو اپنایا جائے اس کا فیصلہ نیتا جی سبھاش چندر بوس اور گرو رابندر ناتھ ٹیگور کی مشاورت سے کیا گیا تھا، کیا اب ہم ان عظیم رہنماؤں کی دانشمندی پر سوال اٹھائیں گے؟


ایس پی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ان عظیم شخصیات نے ’وندے ماترم‘ کے ان الفاظ کو اپنایا جنہوں نے ملک کے تمام طبقات کو متحد کرنے کا کام کیا۔ اسی لئے آج ہمیں اس گیت کی روح کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ گیت ملک کے پانی، جنگلات، زمین، ہریالی اور صاف ہوا کی تعریف کرتا ہے، یہ ہندوستان کے ہر شہری کے لیے نیک تمنا کا اظہارکرتا ہے کہ ملک کا ہر شہری صحت مند، محفوظ رہے اور عزت کے ساتھ زندگی گزار سکے۔

اقرا حسن نے کہا کہ ’سجلام سُفلام‘ کا مطلب ہے ایسا ملک جہاں وافر مقدارمیں پانی ہو، جہاں دریا زندہ ہوں، بہتے اور زندگی فراہم کرتے ہوں لیکن اب جمنا کی حالت دیکھئے۔ دہلی آلودگی کنٹرول بورڈ 2025 کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جمنا کے کئی حصوں میں بی او ڈی کی سطح 127 ملی گرام تک پہنچ گئی ہے، جب کہ زندہ دریاؤں کے لیے یہ صرف 3 ملی گرام فی لیٹر ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف دریا کا بحران نہیں ہے بلکہ کسانوں کا بحران ہے۔ ’نمامی گنگے‘ کے نام پر کروڑوں روپے خرچ ہو گئے لیکن سچائی یہ ہے کہ آج کسان گنگا اور جمنا کے کنارے اسی زہریلے پانی میں کھیتی کرنے پر مجبور ہیں۔ جب پانی زہر آلود ہو جائے گا تو’سفلام‘ کیسے ہوگا۔


اقرا حسن نے آگے کہا کہ اس گیت میں ’ملیج شیتلام' کا مطلب ہے پہاڑوں سے آنے والی ٹھنڈی خوشبودار ہوا جو زندگی بخشتی ہے، بیماری نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا آج کے ہندوستان کی ہوا ملیج شیتلام ہے؟ ابھی پارلیمنٹ کے باہر قدم رکھیں اور گہری سانس لیں، یہ ہوا نہیں، زہر ہے جو آپ کے ہمارے پھیپھڑوں میں داخل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسا ملک ہیں جو فطرت کی پوجا کرتا ہے لیکن خود اپنے جنگلات، ہوا اور درختوں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے قوانین کو ختم کررہا ہے۔ اگر ہم ہوا کو صاف نہیں کرپائے تو نہ تو ’سجلام‘ بچے گا اور نہ ہی’سفلام‘ بچے گا۔ اسی طرح ’شاسیہ شاملام‘ کا مطلب ہے جہاں زمین زرخیز ہو، کھیت فصل سے بھرے ہوں اور کسان مایوس نہ ہو۔ آج کسان صرف موسم کی وجہ سے نہیں بلکہ آلودگی اور نظام کی پالیسیوں کی وجہ سے مر رہے ہیں۔

سماجوادی پارٹی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ آج ’وندے ماترم‘ کو بنیاد بنا کر سیاست ہو رہی ہے، لیکن زمینیں سرمایہ داروں کے حوالے کی جا رہی ہیں۔ قبائلیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔ ماترم نہ صرف مادر وطن کی تعریف کرتا ہے بلکہ اس دھرتی کی ہر عورت، بیٹی کے احترام کی بات کرتا ہے لیکن اگر آپ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ملک میں ہر سال خواتین کے خلاف مظالم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔