انٹرویو: ملک کے پہلے آدیواسی میئر وکرم اہاکے، والدہ آنگن باڑی کارکن اور والد پنچر لگاتے ہیں!

چھندواڑہ مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کا آبائی ضلع ہے، جس نے ملک کو پہلا قبائلی (آدیواسی) میئر دیا ہے۔ یہاں سے 31 سالہ کانگریس لیڈر وکرم اہاکے نے کامیابی حاصل کی ہے۔

ملک کے پہلے آدیوادی میئر وکرم اہاکے/ تصویر آس محمد کیف
ملک کے پہلے آدیوادی میئر وکرم اہاکے/ تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

بھوپال: مدھیہ پردیش کے شہری بلدیہ انتخابات کے بعد چھندواڑہ ایسا ضلع بن گیا ہے جہاں رکن پارلیمنٹ، تمام 7 ارکان اسمبلی، ضلع پرمکھ اور میئر کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے۔ چھندواڑہ مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کا آبائی ضلع ہے، جس نے ملک کو پہلا قبائلی (آدیواسی) میئر دیا ہے۔ یہاں سے 31 سالہ کانگریس لیڈر وکرم اہاکے نے کامیابی حاصل کی ہے۔ وکرم کے والد 2 ایکڑ زمین کے ایک چھوٹے سے کسان ہیں اور وہ پنچر کی دکان بھی چلاتے ہیں۔ جبکہ والدہ آنگن باڑی کارکن ہیں۔ نیشنل ہیرالڈ کے خصوصی نمائندہ آس محمد کیف نے وکرم اہاکے سے خصوصی گفتگو کی، پیش ہیں گفتگو کے اہم اقتباسات:

مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کے ساتھ وکرم اہاکے
مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ کے ساتھ وکرم اہاکے

آپ نے ملک کا پہلا آدیواسی میئر منتخب ہو کر تاریخ رقم کی ہے، کیسا محسوس کر رہے ہیں؟

میں نے کچھ نہیں کیا، جو کیا چھندواڑہ کے عوام نے کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کی عوامی مفاد کی پالیسیوں نے کیا ہے اور میرے استاد کمل ناتھ کے آشیرواد نے کیا ہے۔ مجھے بہت بڑی کامیابی کا نہیں بلکہ ذمہ داری کا احساس ہو رہا ہے۔ بہتر کام کرنے کی کوشش کروں گا۔


آپ آدیواسی سماج سے آتے ہیں اور زمین سے جڑے ہوئے ہیں، اب آپ شہر کی ذمہ داری سنبھالیں گے، آپ کی ترجیحات کیا ہوں گی؟

یہ نئی بات ہے اور میرے لئے بہت بڑا موقع ہے۔ اب آدیواسی سماج کا بیٹا جدید سوچ کا مظاہرہ کرے گا۔ میں اپنی بہترین کوشش کروں گا اور عوام کے بھروسہ پر کھرا اتروں گا، ایسا میرا یقین ہے۔ چھندواڑہ کی آبادی ایک لاکھ 92 ہزار ہے۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں یہاں کا میئر بنوں گا۔ یہ میرے لئے خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کی طرح ہے۔ انتخاب جیتنے کے بعد راہل جی نے مبارک باد پیش کی تو اچھا لگا، اب کچھ کر کے دکھانا ہے۔

آپ کی جدوجہد کا ہر سو چرچا ہو رہا ہے، جو باتیں ہو رہی ہیں ان میں کتنی سچائی ہے؟

جو کہا جا رہا ہے اس میں زیادہ تر سچ ہی ہے۔ میں 4 کلومیٹر پیدل اسکول جاتا تھا اور پیدل ہی واپس آتا تھا۔ جب بارش ہوتی تھی تو پلاسٹک کی بوری کو تہہ کرکے اپنے سر پر رکھ لیتا تھا۔ میری والدہ آنگن واڑی میں کام کرتی تھیں، آج بھی کر رہی ہیں۔ والد ایک چھوٹے کسان ہیں اور ان کے پاس 2 ایکڑ زمین ہے۔ میں نے 150 روپے یومیہ کی مزدوری کی ہے۔ اب بھی سائیکل سے چلتا ہوں۔ والد پنکچر اور چائے کی دکان چلاتے ہیں۔ ہم نے اپنی خواہشوں کو بہت دبایا ہے۔ خوراک بھی محدود تھی۔ کتابیں، قلم اور اسکول بیگ کے لیے بھی سوچنا پڑتا تھا۔ جب میں 8 سال کا تھا تو میری والدہ کو صرف 438 روپے ماہانہ ملتے تھے۔ والد کی دکان پر بیٹھ کر ان کی مدد کرتا تھا۔ اب آپ دیکھیں! میری والدہ آنگن واڑی میں کام کرتی ہے، والد پنکچر کی دکان چلاتے ہیں اور میں میئر ہوں، یہ کانگریس کا کرشمہ ہے۔


آپ سیاسی سرگرمیوں کی جانب کس طرح متوجہ ہوئے؟

سیاسی نہیں سماجی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ میں پیسے سے کسی کی مدد نہیں کر سکتا تھا، اس لیے میں نے اپنے دل و جان سے لوگوں کی مدد کرنا شروع کر دیا۔ جیسے میں نے بیماروں کو اسپتال لے جانا شروع کر دیا۔ اپنی سائیکل پر بیٹھا کر بزرگوں کو چھوڑ آتا تھا۔ غریب بچوں کی تعلیم میں مدد کرتا تھا۔ غریبوں کے درمیان رہتا تھا، ان جیسا تھا، اس لیے ان کا درد بھی سمجھتا تھا۔ لیکن میں یہ سمجھنے لگا تھا کہ بڑے پیمانے پر غریبوں کی مدد سیاسی طاقت کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ مجھے یہ بات کالج سے سمجھ میں آئی، تب میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا، میں دیکھتا تھا کہ دیہاتی ماحول کے طلبا کو لمبی لائنوں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا اور شہری لڑکے انہیں ہٹا دیتے تھے یا اندر جا کر فارم بھرتے تھے، اس کے بعد میں نے اتحاد پیدا کیا اور دیہی علاقوں کے قبائلی طلبا کی مدد کرنا شروع کر دی۔ پہلے این ایس یو آئی سے منسلک ہوا اور پھر یوتھ کانگریس میں سرگرم ہو گیا۔

کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے نوکری لگنے کے بعد اپنا تقرری نامہ کمل ناتھ کو سونپ دیا تھا اور کہا تھا کہ اب ان کے ساتھ کام کریں گے؟

صاحب (کمل ناتھ) میرے آئیڈیل ہیں۔ ان کے بارے میں ہم بچپن سے سنتے آئے تھے۔ میں ان کے سماجی کاموں سے بہت متاثر ہوا۔ سیاست کے بارے میں میری سمجھ پیدا نہیں ہوئی۔ میں ان سے بہتر انسان کو نہیں جانتا۔ وہ ہزاروں لوگوں کا مفت علاج کراتے ہیں۔ بچوں کی اسکول کی فیس خود ادا کرتے ہیں۔ سماجی طور پر بہت فعال ہیں۔ میں سی آر پی ایف میں سپاہی بن گیا تھا۔ میرا تقرری لیٹر بھی آچکا تھا۔ میں جوائن کرنے ہی والا تھا۔ ہمارے یہاں ایک جلسہ تھا جس میں صاحب آئے تھے۔ ضمیر کی آواز پر میں وہاں گیا اور میں نے اپنا تقرری نامہ ان کے حوالے کیا اور کہا کہ میں آپ کی سرپرستی میں معاشرے کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ میں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں صاحب کی وجہ سے ہوں۔


چھندواڑہ مدھیہ پردیش کا ایسا ضلع ہے جسے مکمل طور پر بی جے پی سے پاک کہا جا رہا ہے، کیسے اور کیوں؟

یہ بات درست ہے۔ یہاں کے ایم پی نکول ناتھ جی ہیں، ساتوں ارکان اسمبلی کانگریس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ضلعی سربراہ (پرمکھ) کا تعلق بھی کانگریس سے ہے اور اب میئر بھی کانگریس کا ہو گیا ہے۔ چھندواڑہ کمل ناتھ جی کا آبائی ضلع ہے اور ان کے اچھے کام کا یہاں بہت اثر ہے۔ انہوں نے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا۔ لوگوں کا ذہن بھی بی جے پی سے ہٹ رہا ہے۔ چھندواڑہ میں گزشتہ 18 سالوں سے بی جے پی کا میئر تھا لیکن یہاں ترقی نہیں ہوئی۔ وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے کمل ناتھ جی نے جو بھی فنڈ یہاں بھیجا اس پر کریڈٹ کی سیاست کی وجہ سے بی جے پی کے میئر نے کام نہیں کرایا۔ کانگریس کی سب سے اچھی بات جسے یہاں لوگوں نے پسند کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کر رہے ہیں۔ بی جے پی والے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔

آپ میئر بن کر قبائلیوں کی کس طرح سے مدد کریں گے؟

شہر سے گاؤں تک ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کروں گا۔ قبائلی نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ روزگار کی کمی کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ وہ دوسری ریاستوں میں کام کرنے جا رہے ہیں۔ پانی کا بڑا مسئلہ ہے، یہاں کوئی صنعت نہیں ہے۔ جو کام کانگریس کی حکومت میں ہوا وہ آگے نہیں بڑھا۔ لڑکیوں کے پڑھنے کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ وہ 5 کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ پر موجود ہیں۔ اس کا روڈ میپ تیار کیا جا رہا ہے اور ہم اس کے بارے میں سب سے زیادہ سنجیدہ ہیں۔ یہ دونوں مسائل تنظیم میں زیر بحث آئے ہیں۔ یہاں نئے ہاسٹل کھلنے چاہیئں تھے جو نہیں کھلے۔ اساتذہ ہفتے میں ایک دن اسکول آتے ہیں۔ کچھ تو اسکول آتے ہی نہیں۔ امرواڑا اور بچھوا ایسے ہی مقامات ہیں۔ بی جے پی حکومت میں انتظامیہ سست روی کا شکار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔