گریٹ نکوبار پروجیکٹ: ملک کو آنے والی مصیبت سے باخبر کرنا منفی سیاست نہیں، جے رام رمیش کا وزیر ماحولیات پر جوابی حملہ
کانگریس رہنما جے رام رمیش نے کہا کہ پیڑوں کی کٹائی کبھی بھی پرانے جنگلوں کی اصلی جگہ نہیں لے سکتا لیکن اس پروجیکٹ میں جو پیڑوں کی کٹائی کا منصوبہ بنایا گیا ہے وہ مذاق جیسا ہے۔

مرکزی حکومت کے گریٹ نکوبار انفراسٹرکچر پروجیکٹ پر تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کانگریس مسلسل اس پروجیکٹ کی مخالفت کر رہی ہے۔ اس درمیان وزیر ماحولیات بھوپندر یادو نے کانگریس پر گریٹ نکوبار پروجیکٹ کی مخالفت کرنے پر تبصرہ کیا تھا۔ اب اس پر کانگریس رہنما جے رام رمیش نے جوابی حملہ کیا ہے۔
جے رام رمیش نے کہا ہے کہ ملک کا دھیان ماحولیات اور آنے والی انسانوں پر بڑی آفت کی طرف دلانا منفی سیاست نہیں ہے بلکہ سنگین فکرمندی ظاہر کرنا ہے۔ رمیش نے کہا کہ وزیر کانگریس کی طرف سے اس پروجیکٹ کو لے کر بار بار پوچھے جا رہے بنیادی سوالوں کا جواب دینے سے قاصر رہے۔
جے رام رمیش نے اپنے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا، ’’ مرکزی وزیر ماحولیات، جنگلات و تبدیلیٔ آب و ہوا بھوپندر یادو نے گریٹ نکوبار میگا انفرا پروجیکٹ کو لے کر کانگریس پر منفی سیاست کرنے کا الزام لگایا ہے لیکن ملک کی توجہ ماحولیات اور انسانوں پر بڑی مصیبت کی طرف مبذول کرانا منفی سیاست نہیں ہے، یہ گہری فکرمندی کا معاملہ ہے۔‘‘
کانگریس رہنما نے پروجیکٹ کو لے کر کئی سوالات کیے۔ انہوں نے کہا، ’’کیا لاکھوں پیڑوں کی کٹائی کا مطالبہ کرنے والا یہ پروجیکٹ نیشنل فاریسٹ پالیسی-1988 کی خلاف ورزی نہیں کرتا، جس میں کہا گیا ہے کہ انڈمان-نکوبار جزائر گروپ کے ٹروپیکل بارش/جنگل کو پوری طرح سے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔‘‘
رمیش نے کہا کہ پیڑوں کی کٹائی کبھی بھی پرانے جنگلوں کی اصلی جگہ نہیں لے سکتا لیکن اس پروجیکٹ میں جو پیڑوں کی کٹائی کا منصوبہ بنایا گیا ہے وہ مذاق جیسا ہے۔ گریٹ نکوبار کی انوکھی بارش کے نقصان کی بھرپائی ہریانہ میں، جہاں کا ماحولیات بالکل الگ ہے، کیسے مانی جا سکتی ہے؟ اور ہریانہ حکومت نے اس زمین کا 25 فیصد حصہ شجرکاری کے لیے بچانے کی بجائے کانکنی کے لیے کیوں دے دیا؟
قومی کمیشن برائے درج فہرست قبائل سے اس پروجیکٹ کو منظوری دینے سے پہلے مشورہ کیوں نہیں لیا گیا؟ گریٹ نکوبار کی قبائلی کونسل کی فکرمندی کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟ جزیرہ کی شومپین پالیسی کو کیوں درنکار کیا جا رہا ہے، جس میں ان کی کمیونٹی کی سالمیت کو ترجیح دینے کی بات کہی گئی ہے؟ ایس آئی اے رپورٹ میں شومپین اور نکوباری طبقہ کا ذکر کیوں نہیں ہے؟
جے رام رمیش نے مزید پوچھا، فاریسٹ رائٹس ایکٹ 2006 کے تحت شومپین ہی قبائلی ریزرو کے تحفظ اور انتظام کے لیے قانونی طور سے اہل ہیں تو پروجیکٹ کو منظوری دیتے وقت اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ جزیرہ پر موجود پرجاتیوں جیسے لیدر بیک کچھوا، میگا پوڈ، کھارے پانی کے مگرمگچھ کا کیا ہوگا؟ کیا یہ پروجیکٹ انہیں معدوم کے اور قریب نہیں دھکیل دے گا؟ اس پروجیکٹ سے جڑی اہم رپورٹ عوامی کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ 2004 کی سونامی میں جزیرہ پر ہوئی زمین دھنسنے کے واقعات اور سسمک زون میں واقع ہونے کے باوجود کیا یہ پروجیکٹ ٹکاؤ ہے؟
رمیش نے یہ بھی کہا کہ 20 سال پہلے سپریم کورٹ آن فاریسٹ کنزرویشن نامی کتاب شائع ہوئی تھی جس کے مصنف رتوک دتّہ اور بھوپندر یادو تھے۔ بدقسمتی سے پہلے مصنف کو ان کی ماحولیاتی سرگرمی کے لیے جانچ ایجنسیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ دوسرے مصنف کی حالت کہیں بہتر ہے لیکن بھوپندر یادو کب جاگیں گے؟
واضح رہے کہ کانگریس رہنما سونیا گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ حکومت سبھی قانونی اور بات چیت کے عمل کا مذاق اڑاتے ہوئے گریٹ نکوبار پروجیکٹ کو جبراً آگے بڑھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نکوباری قبائل کے گاؤں اس پروجیکٹ کے دائرے میں آتے ہیں۔ 2004 کی سونامی میں انہیں گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور اب یہ پروجیکٹ انہیں مستقل طور پر اُجاڑ کر منتقل کر دے گا۔