مظفر نگر ’کسان مہاپنچایت‘ میں پرینکا گاندھی نے کسانوں کی نبض پر رکھا ہاتھ

مظفر نگر کسان پنچایت میں پرینکا گنے اور کسانوں کے بحران میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے وعدہ کے ساتھ گہرا اثر چھوڑ گئیں۔ پنچایت میں پہنچے نوجوان مونو نے بتایا کہ پرینکا گاندھی کی باتوں میں اپنائیت ہے۔

مظفر نگر کسان مہاپنچایت میں پرینکا گاندھی
مظفر نگر کسان مہاپنچایت میں پرینکا گاندھی
user

آس محمد کیف

مظفر نگر میں آج صبح سے ہی زبردست کہرا چھایا ہوا تھا۔ صبح سرد تھی۔ گزشتہ ایک ہفتہ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ موسم میں نمی دیکھنے کو مل رہی تھی۔ مظفر نگر شہر سے 12 کلو میٹر دور بگھرا میں پاکیزہ درگاہ عالیہ عباس کے نزدیک سوامی کلیان دیو کالج کے میدان میں 11 بجے تک میڈیا اہلکاروں کی بھیڑ یہاں موجود کسانوں سے زیادہ تھی۔ کانگریس سیوادل کے کارکنان اور مقامی لیڈران دھیرے دھیرے جمع ہو رہے تھے۔ 12 بجے تک یہ تعداد سینکڑوں میں تھی۔ میڈیا اہلکاروں کے درمیان موجود بھیڑ کو لے کر گفت و شنید ہو رہی تھی۔ سہارنپور اور بجنور میں گزشتہ دنوں کانگریس کی کسان پنچایت میں جمع ہوئی زبردست بھیڑ کو دیکھتے ہوئے بگھرا کا ماحول کانگریسیوں کو فکر پیدا کر رہا تھا۔ 12 بجے کے بعد آسمان صاف ہو گیا، دھند مٹ گئی، سورج شباب پر آ گیا اور یہاں موجود عوام کے اندر تازگی کا احساس کرانے لگا۔ آچاریہ پرمود کرشنن کے الفاظ میں کہیں تو موسم بدل گیا۔ عوامی سیلاب امنڈ پڑا۔ جس میدان میں کسانوں سے زیادہ میڈیا اہلکاروں کی بھیڑ تھی، وہاں پیر رکھنے کی جگہ نہیں بچی۔ لوگ چھتوں پر چڑھ گئے۔ سڑکیں جام ہو گئیں۔ میدان میں جب لوگوں کو بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی تو وہ ایک دوسرے سے بالکل سٹ کر کھڑے ہو گئے۔

اتر پردیش میں شاملی اور مظفر نگر کے مشترکہ قصبہ بگھرا میں پرینکا گاندھی 2 بجے کے بعد پہنچیں۔ وہاں پہنچ کر پرینکا گاندھی نے استقبال کے فوراً بعد اسٹیج پر موجود کھاپ چودھریوں کو سلام پیش کیا اور انھیں دوسری صف سے اٹھا کر پہلی صف میں اپنے برابر میں بٹھا لیا۔ یہ دیکھ کر کسانوں کی بھیڑ میں ’پرینکا گاندھی زندہ باد‘ کے نعرے لگنے لگے۔ ریلی کے کنوینر سابق رکن اسمبلی پنکج ملک کے دونوں بیٹوں کو دلارنے کے بعد اسٹیج پر تقریر دینے پہنچیں پرینکا گاندھی کا حوصلہ اور چہرے پر نور قابل دید تھا۔ سہارنپور اور بجنور کے بعد مظفر نگر میں اور بھی بڑا عوامی سیلاب امنڈ پڑا تھا۔ اس میں بھی خاص بات یہ تھی کہ سہارنپور اور بجنور میں اقلیتی طبقہ سے جڑے کسان کثرت میں تھے تو یہاں بگھرا میں جاٹوں اور گوجروں کی بھی زبردست تعداد جمع ہوئی تھی۔ یہیں سسولی سے محض 10 کلو میٹر دور ہے۔ سسولی بھارتیہ کسان یونین کی راجدھانی کہی جاتی ہے اور یہ چودھری ٹکیت کا گاؤں ہے۔ مغربی اتر پردیش میں بے حد اہم جگہ والی اس کسان پنچایت میں پرینکا گاندھی اس عوامی سیلاب پر گہرا اثر چھوڑ گئی۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

پرینکا گاندھی نے کسانوں کی تکلیف میں شراکت داری کرتے ہوئے کہا کہ میں ہر بحران میں آپ کے ساتھ کھڑی رہوں گی۔ گنا کسانوں کی اس بھیڑ میں وہ گنے کی ادائیگی کے ایشو پر بول کر کسانوں کی نبض پر ہاتھ رکھنے میں کامیاب رہیں۔ پرینکا جب جب گنے کا تذکرہ کرتی تھیں تو بھیڑ میں بیٹھے لوگ آپس میں بات کرتے ہوئے کہتے تھے ’’بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ پرینکا نے کہا کہ جتنے پیسے میں کسانوں کے گنے کی ادائیگی ہو جاتی، اتنے پیسے میں وزیر اعظم جی نے دنیا بھر کا دورہ کر لیا، دو ہوائی جہاز خرید لی۔ چار سال سے گنے کی قیمت بڑھائی نہیں گئی ہے۔ انھوں نے زرعی قوانین کی خامیوں کو آسان زبان میں سمجھایا۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ وزیر اعظم جی کو دنیا بھر کی پروا ہے، لیکن 90 دن سے ان کے گھر سے 4 کلو میٹر دور بیٹھے کسانوں کی پروا نہیں ہے، جو اب تک 215 جان گنوا چکے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر میں صرف اور صرف کسان پر بات کی حالانکہ اپنے والد کے بارے میں بات کرتے وقت وہ ایک بار جذباتی بھی ہو گئی اور انھوں نے گہری سانس لے کر اپنی بات پوری کی۔ پرینکا گاندھی نے بتایا کہ 1987 میں ایک حکومت کسانوں کے جائز مطالبات کے سامنے جھک گئی تھی اور وہ حکومت میرے والد راجیو گاندھی جی کی تھی۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ انھیں پورا یقین ہے آج بھی کسان ہی جیتیں گے۔

پرینکا گاندھی کو سننے آئے سسولی کے بزرگ کسان راجبیر چودھری نے بتایا کہ وہ 1987 کے ووٹ کلب کے اس دھرنے میں شامل تھے اور کانگریس نے اپنی ریلی کی جگہ بدل لی تھی۔ حکومت نے کسانوں کی بات مانی تھی۔ لیکن موجودہ حکومت اب تک سب سے ماڑی (خراب) حکومت ہے۔ یہ سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔ پرینکا گاندھی نے بھی یہ بات کہی اور کہا کہ وزیر اعظم جی اپنے کچھ سرمایہ دار دوستوں کی خاطر کسانوں کے حق کو چھین رہے ہیں۔ کسانوں کا بھروسہ جیتنے کی کوشش کے مدنظر پرینکا گاندھی نے ایک اور بات کہی جس کا موجود بھیڑ پر گہرا اثر ہوا۔ انھوں نے یہ بات سابق رکن پارلیمنٹ ہریندر ملک کے ایک بیان کے جواب میں کہی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’پرینکا جی، ہم خوددار ہیں لیکن غدار نہیں ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’میں بھی خوددار ہوں، غدار نہیں ہوں۔‘‘


اب تک کی سب سے بڑی اس کسان مہاپنچایت میں جاٹ-مسلم اتحاد پر بھی بات ہوئی۔ کھاپ چودھری سنجے للون نے کہا کہ ہمیں آپس میں لڑا کر کمزور کیا گیا، وہ تمام جاٹوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ جاٹ اور مسلمان بھائی بھائی، اور سبھی کسانوں کی لڑائی مل جل کر لڑیں۔ کسان پنچایت میں بی جے پی لیڈروں کے گاؤں میں داخل نہ ہونے دینے کا ایشو بھی اٹھا۔ ہریانہ کے کسان لیڈر دیپیندر ہڈا نے کہا کہ کسانوں نے گاؤں-گاؤں میں بی جے پی کے لیڈروں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ مغربی اتر پردیش کے لیڈر عمران مسعود نے اعلان کیا کہ کسان بی جے پی کے لیڈروں سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں، یا اپنے ساتھ کھڑے ہونے کی گارنٹی لیں۔

بے حد کامیاب اس کسان پنچایت میں پرینکا گاندھی گنے اور کسانوں کے بحران میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے وعدہ کے ساتھ گہرا اثر چھوڑ گئیں۔ پنچایت میں پہنچے نوجوان مونو نے بتایا کہ پرینکا گاندھی میں اپنائیت ہے۔ ان کی بات جملہ نہیں لگتی ہے وہ سچ لگتی ہے اور دل پر گہرا اثر کرتی ہے۔ انھیں افسوس ہے کہ وہ بہک گئے تھے، لیکن اب اندھیرا مٹ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔