’مطالبات پورے نہیں ہوئے تو لوک سبھا انتخاب کے دوران بھی تحریک جاری رکھیں گے‘، کسان لیڈروں کا اعلان

آج رام لیلا میدان میں ’کسان مزدور مہاپنچایت‘ منعقد ہوا، پولیس نے کسانوں کو اس شرط پر مہاپنچایت منعقد کرنے کی اجازت دی تھی کہ 5000 سے زیادہ لوگ اکٹھا نہ ہوں، حالانکہ تقریباً 10000 کسان کی شرکت ہوئی۔

<div class="paragraphs"><p>دہلی کے رام لیلا میدان میں جمع کسان، تصویر قومی آواز/ویپن</p></div>

دہلی کے رام لیلا میدان میں جمع کسان، تصویر قومی آواز/ویپن

user

قومی آوازبیورو

ہزاروں کسانوں نے جمعرات کو دہلی کے رام لیلا میدان میں ’کسان مزدور مہاپنچایت‘ میں حصہ لیا، جہاں زرعی شعبہ سے متعلق مرکز کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج تیز کرنے اور آئندہ لوک سبھا انتخاب کے دوران بھی تحریک جاری رکھنے سے متعلق قرارداد پاس کیا گیا۔

واضح رہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعہ تین متنازعہ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے بعد 2021 میں دہلی کے بارڈرس پر کسانوں کی تحریک ختم ہو گئی تھی۔ لیکن ایم ایس پی سے متعلق ابھی تک مرکزی حکومت کے ذریعہ کسانوں کے مطالبات پورے نہیں ہوئے ہیں، اس لیے ایک بار پھر کسان دہلی کے بارڈرس پر جمع ہیں۔ آج دہلی کے رام لیلا میدان میں کسانوں کی گزشتہ تحریک کے بعد غالباً سب سے بڑا اجتماع تھا، جس میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف زوردار آواز اٹھائی گئی۔


آج منعقد ’کسان مزدور مہاپنچایت‘ میں 2021 کی کسان تحریک کی قیادت کرنے والی کسان تنظیم سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے زراعت، فوڈ سیکورٹی، اراضی اور لوگوں کے ذریعہ معاش کو بچانے کے لیے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف لڑائی تیز کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اس مہاپنچایت میں پاس قرارداد کے مطابق اگر ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی اپنی تحریک زور و شور سے جاری رکھیں گے۔

بھارتیہ کسان یونین لیڈر راکیش ٹکیت نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے یہاں میٹنگ کی اور حکومت کو پیغام گیا ہے کہ ہمارے ملک کے کسان متحد ہیں۔ حکومت کو اس ایشو کو سلجھانے کے لیے ہم سے بات کرنی چاہیے۔ یہ تحریک جلد ختم ہونے والی نہیں ہے، بلکہ یہ کشمیر سے کنیاکماری تک پھیل جائے گی۔‘‘ ٹکیت نے مزید کہا کہ حکومت کسانوں کو مزدور بنا کر ملک کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’انھوں نے بہار میں پہلے ہی منڈی نظام ختم کر دیا ہے اور اب وہ ایسا پورے ملک میں کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح وہ چاہتے ہیں کہ کسان مزدور بن جائیں۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’حکومت الگ الگ کسان یونین بنا کر کسانوں کے اتحاد کو توڑنا چاہتی ہے۔ وہ ہمیں ذات، مذہب، علاقائیت اور زبان کی بنیاد پر بانٹنا چاہتے ہیں۔‘‘


مہاپنچایت میں حصہ لینے والے ’کرانتی کاری کسان یونین‘ کے لیڈر دَرشن پال نے کہا کہ کسانوں کے مطالبات کو سالوں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے جو مناسب نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے انتخاب کے دوران بھی اپنی تحریک جاری رکھنے اور بی جے پی کی پالیسیوں پر حملہ کرنے کا قرارداد پاس کیا ہے۔‘‘

آج دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقد ’کسان مزدور مہاپنچایت‘ میں کئی خاتون کسان بھی موجود تھیں، جنھوں نے مرکزی حکومت کے خلاف نعرے بھی بلند کیے۔ مہاپنچایت میں پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، ہماچل پردیش اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں سے بڑی تعداد میں کسان پہنچے تھے۔ کسانوں کی مہاپنچایت بہتر انداز سے چلے، اس کے لیے دہلی پولیس نے وسیع انتظامات کیے تھے۔ انھوں نے مسافروں کو وسطی دہلی کی طرف جانے والی سڑکوں سے بچنے کے لیے ٹریفک ایڈوائزری پہلے ہی جاری کر دی تھی۔ پولیس نے کسانوں کو اس مہاپنچایت کی اجازت اس شرط پر دی تھی کہ 5000 سے زیادہ لوگ اکٹھے نہ ہوں، لیکن تقریباً 10 ہزار کسان مظاہرے والی جگہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔