ہم اڈانی کے ہیں کون: 'جوانوں کی قیمت پر دفاعی شعبہ میں اڈانی کو ترجیح کیوں؟' کانگریس کا پی ایم مودی سے سوال

اڈانی گروپ پر ہوئے انکشافات کو لے کر کانگریس 'ہم اڈانی کے ہیں کون' سیریز کے تحت روزانہ پی ایم مودی سے اڈانی اور ان کی کمپنیوں کو لے کر سوال پوچھ رہی ہے، حالانکہ اب تک کسی سوال کا جواب نہیں ملا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>گوتم اڈانی اور نریندر مودی</p></div>

گوتم اڈانی اور نریندر مودی

user

قومی آوازبیورو

کانگریس نے آج 'ہم اڈانی کے ہیں کون' سیریز کی بیسویں قسط کے تحت پی ایم مودی سے گوتم اڈانی پر تین سوال پوچھے ہیں۔ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سوالوں کا سیٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ "محترم وزیر اعظم مودی جی، جیسا کہ آپ سے وعدہ تھا 'ہم اڈانی کے ہیں کون' سیریز میں آپ کے لیے تین سوالوں کا بیسواں سیٹ پیش ہے۔ ہم نے آپ سے 15 فروری 2023 کو ہندوستان-اسرائیل دفاعی تعلقات کے ایک بڑے شعبہ کو اپنے قریبی دوست اڈانی کو سونپنے کے سلسلے میں کئی سوال پوچھے تھے، چاہے وہ ڈرون ہو، چھوٹے ہتھیار ہوں، دفاعی الیکٹرانکس ہوں یا رکھ رکھاؤ و مرمت کا شعبہ ہو۔ آج ہم مسلح افواج کے لیے چھوٹے ہتھیاروں کی خرید کے بڑے ٹھیکوں میں اڈانی گروپ کو نامناسب فائدہ دینے میں آپ کے کردار کے بارے میں کچھ مزید سوال پوچھ رہے ہیں۔" اس کے بعد جئے رام رمیش نے حسب سابق تین سوال پوچھے۔

سوال نمبر 1:

2018 میں ہندوستانی فوج نے استعمال کے لیے پرانی ہو چکی سب مشین گن کو بدلنے کے لیے متحدہ عرب امارات واقع کاراکل انٹرنیشنل کے ذریعہ تیار سی اے آر 816 کلوز کوارٹر بیٹل (سی کیو بی) کاربائن کا انتخاب کیا۔ حالانکہ یہ اسی 'کرافٹ ٹریک عمل' کے تحت کیا گیا، جس کے تحت 72400 ایس آئی جی سار 716 اسالٹ رائفلوں کی خرید ہوئی تھی، لیکن ستمبر 2020 میں 93895 کاربائن خریدنے کا آرڈر اچانک رد کر دیا گیا۔ 10 فروری 2021 کو فوج نے ایک بار پھر اسی تعداد میں کاربائن خریدنے کا اڈانی ڈیفنس سمیت دیگر وینڈرس کو درخواست جاری کی۔ اس حقیقت کے مدنظر کہ چینی دراندازی کے بعد مشرقی لداخ میں ہمارے فوجیوں کو فوراً ان اسلحوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے، کیا آپ اس معاہدہ کو رد کر کے اور نئے سرے سے ٹنڈر کھول کر ہمارے فوجیوں کی قیمت پر اپنے متروں کو ترجیح نہیں دے رہے ہیں؟ اس بار کاربائن کی فراہمی کو لے کر، جس کی مجموعی ضرورت چار لاکھ بندوقوں تک ہونے کا اندازہ ہے، کیا ایک بار پھر آپ اڈانی کا ایک اور سیکٹر میں بالادستی قاءم کرنے کا راستہ نہیں کھول رہے ہیں؟


سوال نمبر 2:

3 مارچ 2019 کو آپ نے امیٹھی (اتر پردیش) میں او ایف بی کوروا کارخانہ میں اے کے 203 اسالٹ رائفل بنانے کے لیے ایک ہند-روس جوائنٹ ونچر کا افتتاح کیا اور اعلان کیا کہ "اب میک ان امیٹھی ایک حقیقت ہے۔" یہ اور بات ہے کہ اے کے 203 کا پروڈکشن شروع کرنے میں تین مزید سال لگ گئے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ انڈو رشین رائفلز پرائیویٹ لمیٹڈ (آئی آر آر پی ایل)، جو 7 لاکھ اے کے 203 رائفلز بنا رہی ہے، کو سی کیو بی معاہدہ پر وزارت دفاع کی 10 جنوری 2023 کی بریفنگ سے باہر رکھا گیا تھا۔ آپ دفاعی شعبہ میں خود کفیلی کی اہمیت کا ہمیشہ راگ الاپتے رہتے ہیں، پھر بھی آپ کی حکومت نے ہندوستان کے سب سے بڑے سودیشی چھوٹے ہتھیاروں کے کارخانے کو بولی لگانے کے عمل سے باہر کر دیا ہے۔ کیا ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ آپ ایک بار پھر اپنے نجی سیکٹر کے دوستوں کی ان پبلک سیکٹر کے ونچر کو ختم کرنے میں مدد کر رہے ہیں جو حال میں مسلح افواج کو ہتھیاروں کی فراہمی کر رہے ہیں؟ کیا آپ فکر مند ہیں کہ بڑے پیمانے پر چھوٹے ہتھیاروں کا پروڈکشن کرنے والی ایک موجودہ فیکٹری آپ کے قریبی دوستوں کو پیچھے چھوڑ دے گی اور انھیں ہندوستانی ٹیکس دہندگان سے حاصل ریونیو کا فائدہ اٹھانے کے مزید ایک موقع سے محروم کر دے گی؟

سوال نمبر 3:

ہندوستان مسلح افواج طویل وقت سے اسرائیل کے چھوٹے ہتھیاروں جیسے ٹیور اسالٹ رائفلز اور گیلل سنائپر رائفلز سے لیس ہیں۔ مارچ 2020 میں اسرائیل ویپنس انڈسٹریز (آئی ڈبلیو آئی) نے 16479 نیگیو این جی 7 لائٹ مشین گن کی فراہمی کے لیے ہندوستانی فوج سے معاہدہ کیا تھا۔ ستمبر 2020 میں اڈانی نے گوالیر واقع پی ایل آر سسٹمز میں اکثریت کی حصہ داری خریدی، جس کا آئی ڈبلیو آئی کے ساتھ ایک جوائنٹ ونچر تھا، جس نے اڈانی کو نیگیو مشین گنوں کے لیے کسی بھی بعد میں حاصل ہونے والے خرید حکم پر بالادستی حاصل کرنے کی حالت میں پہنچا دیا۔ اگر دلیل کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ آئی آر آر پی ایل کو اس سیکٹر میں نئی صنعتوں کی مدد کے لیے باہر رکھا جا رہا ہے تو پھر آپ کے قریبی دوست اڈانی کو سی کیو بی معاہدہ کے لیے بولی لگانے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا یہ زبردست جانبداری کا معاملہ نہیں ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔