’یہ ایکٹ آف گاڈ ہے یا ایکٹ آف فراڈ‘، موربی حادثہ کے بعد اپنے ہی بیان پر برے پھنسے پی ایم مودی!

موربی پل حادثہ کو لے کر اٹھ رہے سوالوں کے جواب گجرات حکومت اور پی ایم مودی کو دینے چاہئیں، جواب یہ بھی دینا چاہیے کہ یہ ایکٹ آف گاڈ ہے یا ایکٹ آف فراڈ، اور بھگوان نے الیکشن کے وقت کیا اشارہ دیا ہے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

’یہ برج ٹوٹا... یہ ایکٹ آف گاڈ نہیں... ایکٹ آف فراڈ ہے... فراڈ... یہ ایکٹ آف فراڈ کا نتیجہ ہے... ایکٹ آف گاڈ اتنا ضرور ہے، کیونکہ انتخاب کے دنوں میں گرا... تاکہ پتہ چلے کہ آپ نے کیسی حکومت چلائی ہے... اس لیے بھگوان نے لوگوں کو پیغام دیا ہے... کہ آج یہ برج ٹوٹا... کل ہی پورا ملک ختم کر دے گی... اسے بچاؤ... یہ بھگوان نے پیغام بھیجا ہے...۔‘‘ یہ الفاظ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہیں، اور انہی الفاظ کو لے کر این ایس یو آئی کے سربراہ شرینواس بی وی نے سوال اٹھایا ہے۔

لیکن آپ کسی غلط فہمی میں مت رہیے۔ ان الفاظ کا گجرات کے موربی میں کیبل برج ٹوٹنے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ تو مغربی بنگال کے گزشتہ اسمبلی انتخاب کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا حصہ ہے۔ موربی معاملے میں تو انھوں نے بس اتنا ہی کہا ہے کہ ’میری ہمدردی اس حادثہ کے متاثرین کے ساتھ ہے‘، وہ بھی ایک بڑی تقریب کے دوران پارک کے افتتاح کے موقع پر۔


اُس گجرات میں جو وزیر اعظم کی جائے پیدائش ہے اور سیاست کی پاٹھ شالہ بھی، وہاں تازہ رپورٹ ملنے تک 141 لوگوں کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے اور بڑی تعداد میں زخمی افراد الگ الگ اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ برج ٹوٹنے کے واقعہ کو کیا کہا جائے، ایکٹ آف گاڈ یا ایکٹ آف فراڈ...۔

اور اتنا ہی نہیں، اس پل پر جانے کے لیے تو باقاعدہ فیس وصولی جا رہی تھی، ٹکٹ لگ رہا تھا۔ ایک ایسی کمپنی یہ ٹکٹ فروخت کر رہی تھی جس کے پاس اس پل کے رکھ رکھاؤ اور آپریٹ کرنے کا ٹھیکہ ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کمپنی کو اس کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔


افسوسناک واقعہ یہ ہے کہ اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، موربی ہی نہیں، کسی بھی حادثہ پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، ہاں سوال ضرور اتھنے چاہئیں، جانچ تیزی سے ہونی چاہیے، ذمہ داری طے ہونی چاہیے، اس برج کے رکھ رکھاؤ اور اسے عام لوگوں کے لیے کھولنے کی اجازت دینے والے افسران کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے، لیکن اس سب پر تو وزیر اعظم حادثہ کے تقریباً 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی خاموش ہی ہیں۔

اتنا ہی کافی نہیں، وزیر اعظم تو گجرات میں ہی ہیں، کئی تقاریب میں شامل بھی ہو رہے ہیں، رسمی طور پر اس حادثہ پر افسوس بھی ظاہر کر رہے ہیں، لیکن وہ اس پر کچھ کھل کر نہیں بول رہے ہیں کہ آخر اس پل کو اچانک کیوں کھولا گیا، وہ بھی بغیر سرکاری محکمہ کی اجازت کے؟ اس پر بھی کچھ نہیں بول رہے ہیں کہ آخر جس پل پر ایک بار میں 60-50 لوگوں کو ہی جانے کی اجازت تھی، اس پر ایک ساتھ 500-400 لوگ کیسے پہنچ گئے؟ یہ بھی نہیں بتا رہے ہیں کہ اس پل کی دیکھ ریکھ اور اسے آپریٹ کرنے کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو کیوں دے دیا گیا جسے پل کے رکھ رکھاؤ اور آپریٹ کرنے کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا؟ اس پل کی مرمت تو اسی لیے کرائی گئی تھی کہ یہ مخدوش ہو گیا تھا، تو پھر اسے پوری طرح کھول کیوں دیا گیا؟


یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب گجرات حکومت اور وزیر اعظم کو دینے چاہئیں۔ جواب یہ بھی دینا چاہیے کہ یہ ایکٹ آف گاڈ ہے یا ایکٹ آف فراڈ، اور بھگوان نے الیکشن کے موسم میں کیا اشارہ دیا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔