’تمھاری ہر کوشش کے باوجود گاندھی زندہ رہے گا‘، منریگا کا نام بدلے جانے پر راجیہ سبھا میں کانگریس کا سخت رد عمل
مکل واسنک نے مودی حکومت کے نئے بل ’جی رام جی‘ کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس بل کے لیے کسی جلدبازی کی ضرورت نہیں، وقت لیجیے، بنیادی تبدیلی کیجیے، آپ ایک اچھا بل لائیے، ہم پورا ساتھ دیں گے۔‘‘

’منریگا‘ منصوبہ کا نام بدل کر ’وی بی-جی رام جی‘ رکھنے اور اس میں کچھ فکر انگیز تبدیلی کیے جانے والے بل پر راجیہ سبھا میں آج خوب گھمسان دیکھنے کو ملا۔ یہ بل لوک سبھا میں ہنگامہ کے درمیان منظور ہو گیا ہے، اور پھر راجیہ سبھا میں کانگریس سمیت مختلف اپوزیشن پارٹیوں نے مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا رکن مکل واسنک نے خاص طور پر ایوانِ بالا میں اپنی بات مضبوطی کے ساتھ رکھتے ہوئے نہ صرف منریگا کی خوبیاں شمار کرائیں، بلکہ حکمراں طبقہ پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ اسے منریگا میں موجود مہاتما گاندھی کے نام سے نفرت ہے۔
مکل واسنک نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ’’2004 میں قومی دیہی روزگار گارنٹی منصوبہ پر ایک بل ایوان میں رکھا گیا تھا۔ اس بل کو لانے میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی کا بہت بڑا کردار تھا۔ اسٹینڈنگ کمیٹی سے آنے کے بعد یہ بل جب دوبارہ ایوان میں رکھا گیا، تب 18 اگست 2005 کو سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ سیاسی تفریق کے بغیر سماج اور حکومت کے درمیان آپسی تعاون کے ساتھ کیسے کام ہو سکتا ہے، میں سمجھتی ہوں یہ بل اس کی زندہ مثال ہے۔‘‘ اس تاریخی حقیقت کو پیش کرنے کے بعد واسنک نے کہا کہ ’’میرا سوال اس حکومت سے ہے کہ کیا وہ لوگ اس بات کو دہرا سکتے ہیں؟ منریگا سے کام کے حق کی گارنٹی تھی۔ یہ ڈیمانڈ ڈرائیون گارنٹی تھی، جس میں ہر دیہی مزدور کو مطالبہ کے اندر 15 دن میں کام ملتا تھا، اور کام نہ ملنے کے معاملے میں اسے بے روزگاری بھتہ دینے کی سہولت تھی۔ اس منصوبہ میں مرکزی حکومت کا اہم کردار تھا اور کام کے انتخاب کی ذمہ داری گرام پنچایتوں کے پاس تھی۔ آج اس نئے قانون میں گرام پنچایتوں کا یہ اختیار ختم کر دیا گیا اور سب کچھ طے کرنے کا حق مرکزی حکومت کو دے دیا گیا۔ منریگا منصوبہ میں حکومت اور ریاست کے درمیان 90:10 کا تناسب تھا، جو اب 60:40 کا ہو گیا ہے۔‘‘
مکل واسنک آگے کہتے ہیں کہ ’’سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے تناسب طے کرنے کے لیے کسی ریاست سے بات کی، اگر بات ہوئی تو کیا مشورے آئے؟ آخر وفاقی ڈھانچہ میں اس طرح کام کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘ منریگا کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’کورونا کے وقت ملک کے 2 منصوبے ’نیشنل فوڈ سیکورٹی‘ اور ’منریگا‘ کروڑوں لوگوں کی لائف لائن بنی۔ حکومت کو یہ جان لینا چاہیے کہ منریگا ہماری حصولیابیوں کی علامت ہے، جس سے لاکھوں گھروں میں روشنی پھیلی۔‘‘ تلخ تیور اختیار کرتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ ’’حکومت اسکیموں سے نام ہٹا سکتی ہے، لیکن ہندوستان کے لوگوں کی یادوں سے مہاتما گاندھی جی، نہرو جی، سردار پٹیل جی اور امبیڈکر جی کو نہیں ہٹا سکتی ہے۔‘‘
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مکل واسنک کہتے ہیں کہ ’’گاندھی جی کہتے تھے کہ اقتدار کا مطلب خدمت ہوتا ہے، لیکن اس حکومت کا خدمت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ حکومت کتابوں، پوسٹروں اور منصوبوں سے گاندھی جی کا نام ہٹا سکتی ہے، لیکن گاندھی وہ سوال ہیں جو ہر بھوکے پیٹ سے اٹھتا ہے اور جب تک سوال زندہ ہے، تمھاری ہر کوشش کے باوجود گاندھی زندہ رہیں گے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ’’یہ حکومت منریگا کا نام بدل کر سوچ رہی ہے تاریخ بدل جائے گی۔ لیکن یاد رکھو، جس مٹی میں مزدور کا پسینہ گرا ہے، وہاں ’گاندھی‘ لکھا ہے۔ تمھارا خوف صاف ہے- ایک آدمی جس کے پاس نہ تخت تھا، نہ تاج... وہ آج بھی تمھاری نیند اڑاتا ہے۔ گاندھی کا نام کبھی کتابوں سے ہٹاتے ہو، تو کبھی منصوبوں سے ہٹاتے ہو، لیکن سن لو... گاندھی وہ سوال ہے جو ہر بھوکے پیٹ سے اٹھتا ہے اور جب تک سوال زندہ ہے، تمھاری ہر کوشش کے باوجود گاندھی زندہ رہے گا۔‘‘
راجیہ سبھا میں حکمراں طبقہ کو مخاطب کرتے ہوئے مکل واسنک نے کہا کہ ’’جب 2005 میں دیہی روزگار پر بل پاس ہوا تھا تو ’روزگار گارنٹی زندہ باد‘ کے نعرے لگے تھے، لیکن آج ایوان میں مایوسی چھائی ہے۔ اگر آپ اس کے اوپر غور کریں تو آپ ذمہ داری سے اس بل کو واپس لیں گے، اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجیں گے۔ اس بل کے لیے کوئی جلدبازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وقت لیجیے، بنیادی تبدیلیاں کیجیے۔ آپ ایک اچھا بل لائیے، ہم پورا ساتھ دیں گے۔ ہم ساتھ مل کر ہندوستان کے مزدوروں کو اوپر اٹھانے کا کام کریں گے۔‘‘
اپنی تقریر کے دوران کئی مواقع پر مکل واسنک نے حکمراں طبقہ کے سامنے اہم اور چبھتے ہوئے سوالات رکھے۔ انھوں نے یہ بھی پوچھا کہ ’’اس ایوان کے پرانے ساتھی جانتے ہیں کہ پرانے پارلیمنٹ ہاؤس کے صدر دروازہ پر مہاتما گاندھی کا مجسمہ تھا، سوال یہ ہے کہ اب وہ مجسمہ کہاں چلا گیا؟‘‘ پھر وہ کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی کے لوگ سردار پٹیل اسٹیڈیم کا نام بدل دیتے ہیں، لیکن یاد رکھیے... اس مٹی کے ذرہ ذرہ میں سردار پٹیل جی، مہاتما گاندھی جی، نہرو جی اور مولانا آزاد جی بسے ہوئے ہیں۔ ان کا نام اسکیموں سے ہٹایا جا سکتا ہے، لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود بی جے پی ہندوستان کی جمہوریت کی بنیاد رکھنے والی ان عظیم ہستیوں اور ’بھارت رتن‘ بابا صاحب امبیڈکر جی کے نام نہیں مٹا سکتی۔‘‘