’ہر دھماکہ موت کی دستک دیتا محسوس ہو رہا تھا‘، یوکرین سے رانچی لوٹے طلبا کا بیان

’’خوف نے آنکھوں کی نیند چھین لی تھی، ہر صبح و شام تیز ہوتی بھوک کے درمیان زندگی کی جدوجہد بڑھ جاتی تھی، آج اپنی زمین پر قدم رکھنے کے بعد لگ رہا ہے جیسے ہمیں ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔‘‘

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

قومی آوازبیورو

’’ہر دھماکہ موت کی دستک دیتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ خوف نے آنکھوں کی نیند چھین لی تھی، ہر صبح و شام تیز ہوتی بھوک کے درمیان زندگی کی جدوجہد بڑھ جاتی تھی، آج اپنی زمین پر قدم رکھنے کے بعد لگ رہا ہے جیسے ہمیں ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔‘‘ یہ احساسات ان طلبا و طالبات کے ہیں جو یوکرین سے واپس اپنے گھر جھارکھنڈ لوٹے ہیں۔ ایسے طلبا و طالبات کے ایک گروپ نے جمعہ کو ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین سے ملاقات کی۔ انھوں نے اپنے تجربات ظاہر کیے اور واپسی کے لیے ھکومت کی طرف سے کی جا رہی کوششوں کے لیے شکریہ ادا کیا۔

جمعہ کو یوکرین سے 10 طلبا جھارکھنڈ پہنچے، جب کہ جمعرات کو 24 طلبا و طالبات کی واپسی ہوئی تھی۔ اب تک جھارکھنڈ کے 90 طلبا و طالبات یوکرین سے واپس آ چکے ہیں۔ کئی بچے اپنے گھر تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت یوکرین سے ریاستی باشندوں کی محفوظ واپسی کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیے کنٹرول روم کا انتظام کیا جا رہا ہے تاکہ ریاستی باشندوں کی جانکاری ہمیں حاصل ہو اور ان کی بہ حفاظت واپسی یقینی ہو سکے۔


وزیر اعلیٰ سے ملنے والوں میں مہگاما کے محمد شمس الحق، عبدالعظیم، سہیل اختر اور محمد دانش آرزو شامل تھے۔ یہ سبھی یوکرین کے ونتسنا واقع کے وی ایم یو کالج میں پڑھائی کر رہے تھے۔ کئی طلبا و طالبات کے سرپرست انھیں لینے رانچی تک پہنچے تھے۔ گھر والوں سے مل کر ان میں سے کئی طلبا و طالبات کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔

گھر لوٹنے والوں میں جمشید پور کے محمد ظفر انصاری، ہزاری باغ کے آنند شرما، صاحب گنج کے گریندر کمار، مغربی سنگھ بھوم کے ویبھو مندرا اور دِویا سنگھ و دُمکا کے آدتیہ کمار شامل رہے۔ ان طلبا و طالبات نے کہا کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے الرٹ کے دوران وطن نہیں لوٹنے کا بہت افسوس رہا۔ یہ قطعی احساس نہیں تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے حالات اتنے خراب ہو جائیں گے۔


گوڈا کے دانش اظہر نے کہا کہ یوکرینی فوج کا سلوک حالانکہ طلبا کے ساتھ بہت بہتر نہیں تھا، لیکن خود کو ہندوستانی بتانے پر وہاں کی فوج لوگوں کو آگے بڑھنے دے رہی تھی۔ جمشید پور کے طالب علم ظفر نے کہا کہ جب انھیں پتہ چلا کہ حکومت ہند کی ٹیم انھیں ریسکیو کرنے آ رہی ہے، تو لگا جیسے اب مشکل سے باہر آ گئے ہیں۔ ترنگا لگی گاڑیوں نے امید روشن کر دی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔