الیکشن کمیشن کے ملک گیر ایس آئی آر کے خلاف احتجاج، تمل ناڈو، کیرالہ اور بنگال میں شدید مخالفت

الیکشن کمیشن کے 12 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظر ثانی (ایس آئی آر) کے اعلان کو جنوبی ریاستوں نے جلدبازی میں لیا گیا فیصلہ اور سازش قرار دے کر مخالفت کی ہے

<div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

الیکشن کمیشن نے پیر کو ملک کی 12 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر - اسپیشل انٹینسیو ریویژن) کا اعلان کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے بتایا کہ ان ریاستوں کی ووٹر لسٹوں کو پیر کی رات 12 بجے سے فریز کر دیا گیا ہے اور یہ عمل 4 نومبر سے شروع ہوگا۔ اس کے بعد حتمی فہرست فروری 2026 میں جاری کی جائے گی۔

اس اعلان کے ساتھ ہی جنوبی ریاستوں میں سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ تمل ناڈو، کیرالہ اور مغربی بنگال کی حکومتوں نے کمیشن کے فیصلے کو سیاسی سازش اور ووٹ چھیننے کی کوشش قرار دیا ہے۔ تمل ناڈو کی حکمراں ڈی ایم کے پارٹی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا یہ قدم ریاست کے عوام کے ووٹ کے حق پر حملہ ہے۔

ڈی ایم کے حکومت نے 2 نومبر کو اس معاملے پر آل پارٹی میٹنگ بلانے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی نے کہا کہ نومبر-دسمبر کے دوران ریاست میں شمال مشرقی مانسون فعال رہتا ہے، ایسے وقت میں اتنی بڑی کارروائی کرنا غیر عملی ہے۔ ڈی ایم کے نے الزام لگایا کہ بہار میں ایس آئی آر کے دوران مسلمانوں، دلتوں اور خواتین کے نام ووٹر لسٹ سے حذف کیے گئے، اسی طرز پر تمل ناڈو میں بھی سازش ہو سکتی ہے۔

پارٹی نے کہا، ’’ہم ووٹر لسٹ کی اصلاح کے خلاف نہیں لیکن یہ عمل جلدبازی اور سیاسی دباؤ میں نہیں ہونا چاہیے۔ ڈی ایم کے کے مطابق ریاست میں اپریل 2026 میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، اس لیے اب ووٹر لسٹ میں بڑی تبدیلی تشویش کا باعث ہے۔


مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سوال اٹھائے ہیں۔ پارٹی کے راجیہ سبھا رکن ڈیریک او برائن نے کہا، ’’بہار میں جو ہوا وہ صرف ریہرسل تھی، اصل نشانہ بنگال ہے لیکن بنگال کے عوام الیکشن کمیشن کو جواب دیں گے۔‘‘

دوسری جانب کیرالہ میں مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) نے اس فیصلے کو یکطرفہ اور غیر جمہوری قرار دیا۔ سی پی ایم رہنما ایم اے بیبی نے کہا، ’’جب بہار کے ایس آئی آر معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے تو الیکشن کمیشن کا پیش قدمی کرنا جمہوری اقدار کی توہین ہے۔ کیرالہ اسمبلی نے بھی اس کے خلاف قرارداد پاس کی تھی مگر کمیشن نے کسی کی بات نہیں سنی۔‘‘

کیرالہ حکومت کی تشویش کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں جلد بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں لیکن چیف الیکشن کمشنر نے وضاحت کی کہ ابھی تک کیرالہ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا، اس لیے ایس آئی آر میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں۔

پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے واضح کیا کہ آئین کے آرٹیکل 324 کے تحت کمیشن کو انتخابی فہرستوں کی تیاری اور نظرثانی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے کہا، ’’الیکشن کمیشن اپنا آئینی فریضہ ادا کر رہا ہے اور ریاستی حکومتیں بھی آئینی طور پر اس میں تعاون کرنے کی پابند ہیں۔‘‘


ان کے مطابق ’’نظم و نسق کی صورت حال برقرار رکھنا ریاستوں کی ذمہ داری ہے اور انہیں ووٹر لسٹوں کے جائزے اور انتخابات کے لیے عملہ فراہم کرنا آئینی فریضہ ہے۔‘‘ گیانیش کمار نے مزید کہا کہ کمیشن کسی بھی سیاسی دباؤ میں نہیں بلکہ شفاف اور درست ووٹر لسٹ کے مقصد سے کام کر رہا ہے۔

ایس آئی آر کا اثر اتر پردیش میں ہونے والے پانچایت انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے، کیونکہ ریاست میں اگلے سال اپریل-مئی 2026 میں پنچایت چناؤ ہونے ہیں۔ اگرچہ اسمبلی اور پنچایت انتخابات کی ووٹر لسٹیں الگ ہوتی ہیں لیکن انہیں تیار کرنے والا عملہ ایک ہی ہوتا ہے، جس سے عملی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

ریاست میں پہلے ہی یکم جنوری 2025 کے حوالے سے ووٹر لسٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کا کام جاری ہے۔ پانچ دسمبر کو اس کا مسودہ جاری ہونا ہے اور 15 جنوری 2026 کو حتمی فہرست شائع ہوگی۔ ایسے میں ایس آئی آر کے اعلان سے یہ پورا شیڈول متاثر ہو سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اتر پردیش میں سیاسی جماعتوں نے ابھی تک اس پر کسی قسم کا احتجاج نہیں کیا ہے۔ البتہ سماج وادی پارٹی نے ووٹر لسٹ کی شفافیت یقینی بنانے کے لیے ایک نئی پہل کی ہے۔ پارٹی صدر اکھلیش یادو نے ’ایکس‘ (سابق ٹوئٹر) پر لکھا، ’’سب کو اس کے ووٹ کا حق دلوانا ہے، ہر ووٹ کا محافظ بن کر جمہوریت کو بچانا ہے۔‘‘