’جن کے نام حذف کیے گئے وہ لیگل سروس اتھارٹی کی مدد سے کریں اپیل‘، بہار ایس آئی آر معاملے میں سپریم کورٹ کی ہدایت

تمام فریق کی دلیلیں سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کہا کہ ان کارروائیوں کے نتائج کے باوجود ایک چیلنج یہ ہے کہ حتمی لسٹ سے باہر رکھے گئے تقریباً 3.66 لالکھ لوگوں کو اپیل کرنے کے حق کو یقینی بنایا جائے۔

الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ
i
user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظر ثانی (ایس آئی آر) معاملہ پر جمعرات (9 اکتوبر) کو سماعت ہوئی۔ جسٹس سوریہ کانت کی صدارت والی 2 رکنی بنچ نے معاملہ کی سماعت کی۔ تمام فریق کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کہا کہ ان کارروائیوں کے نتائج کے باوجود ایک چیلنج یہ ہے کہ حتمی لسٹ سے باہر رکھے گئے تقریباً 3.66 لالکھ لوگوں کو اپیل کرنے کے حق کو یقینی بنایا جائے۔ عرضی گزاروں نے اس کی مخالفت کی ہے، لیکن اپیل دائر کرنے کا وقت کم ہو رہا ہے، اس لیے ہم اسے مناسب تصور کرتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ایک عبوری اقدام کے طور پر بہار اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے ایگزیکٹیو چیئرمین سے گزارش کی جائے کہ وہ آج ہی ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے تمام سکریٹریوں کو پیرا لیگل رضاکاروں اور مفت قانونی معاونت کے مشیروں کی خدمات فراہم کرنے کے لیے خط بھیجیں۔ تاکہ لسٹ سے باہر رکھے گئے لوگوں کو قانونی اپیلیں دائر کرنے میں مدد مل سکے۔ سکریٹری فوری طور پر ہرایک گاؤں میں پیرا لیگل رضاکاروں کے موبائل نمبر اور مکمل تفصیلات دوبارہ مطلع کریں، جو بی ایل او سے رابطہ کریں گے۔ وہ حتمی لسٹ سے باہر رکھے گئے لوگوں کے متعلق معلومات اکٹھی کریں گے۔ پی ایل وی ان افراد تک پہنچیں گے اور انہیں اپیل کے حق کے بارے میں مطلع کریں گے۔ وہ اپیل کا مسودہ تیار کرنے اور مفت قانونی تعاون سے متعلق مشاورت کی خدمات فراہم کریں گے۔ ایس ایل ایس اے معلومات جمع کریں گے اور ایک ہفتہ میں عدالت کو اسٹیٹس رپورٹ پیش کرے گا۔


اس سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے سینئر وکیل راکیش دویدی نے دلیلیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ اے ڈی آر سمیت دیگر عرضی گزاروں سے حلف نامے میں کیے گئے ووٹ کاٹے جانے سے متعلق الزام مکمل طور سے غلط ہے۔ غلط کہانی بنائی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیش نے کہا کہ جس خاتون کا نام کاٹنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، اس کا ڈرافٹ لسٹ اور  حتمی لسٹ میں بھی نام ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک نام کی پرچی بیچی جا رہی ہے کہ یہ نام کاٹا گیا ہے، جبکہ ان کی جانب سے کوئی درخواست نہیں دی گئی ہے۔ دویدی نے کہا کہ ایک دلیل یہ تھی کہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں بڑی تعداد میں لوگوں کے نام تھے، لیکن اچانک ان کے نام لسٹ سے غائب ہو گئے۔ مجھے اب تک 3 حلف نامے ملے ہیں، ہم نے اس کی جانچ کی ہے، یہ حلف نامہ مکمل طور سے جھوٹا ہے۔ براہ کرم پیرا 1 دیکھیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ میں بہار کا شہری ہوں اور ڈرافٹ لسٹ میں تھا۔ وہ نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے فارم جمع نہیں کیا تھا، یہ جھوٹ ہے۔ پھر انہوں نے ووٹر آئی ڈی نمبر دیا، اس میں مذکور پولنگ اسٹیشن 52 ہے، لیکن اصل نمبر 653 ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ وہ نام بھی ایک خاتون کا ہے، ان کا نہیں۔ وہ ڈرافٹ لسٹ میں نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس آئٹم میں ان کا نام ہی نہیں ہے۔ ڈرافٹ اور فائنل لسٹ میں بھی ایک خاتون کا نام ہے۔ پھر حلف نامہ میں لکھا ہے کہ متعلقہ دستاویزات منسلک ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر ایک اسٹامپ پیپر ہے، جس پر 8 ستمبر کی تاریخ ہے، یہی وہ تاریخ ہے جب سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے رکن مدد کریں گے۔ عرضی گزار کا نام بھی دیکھیے، ایسا لگتا ہے کہ نوٹری اس کاغذ کو بار بار فروخت کر رہے ہیں۔


دویدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے حکم دیا تھا کہ جن ناموں کو فہرست سے باہر رکھا گیا ہے انہیں بوتھ کے حساب سے شائع کریں۔ ہم نے اس ہر جگہ لگا دیا ہے، انہیں تب مکمل جانکاری تھی۔ بی ایل او، بی ایل اے، سیاسی پارٹیاں وغیرہ سب وہاں موجود ہیں۔ جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ اب اس میں شک ہے کہ ایسا کوئی شخص ہے بھی یا نہیں۔ دویدی نے کہا کہ بھوشن کے حلف نامے میں بڑی تعداد میں لوگوں کو فہرست سے باہر ہونے کی بات ہٹا دی ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ 130 لوگوں کو لسٹ سے باہر کیا گیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ پہلی بار نام درج کرانا چاہتے تھے۔ اگر انہیں کوئی شکایت ہے تو وہ 5 دنوں کے اندر اپیل دائر کر سکتے ہیں۔

وکیل راکیش دویدی نے کہا کہ یہ سیاسی پارٹیاں صرف ماحول بنانا چاہتی ہیں اور کوئی مدد نہیں۔ اب انہوں نے کئی مسلمانوں کو باہر رکھا ہے، وغیرہ کا تجزیہ کیا ہے۔ ہم ایک ایسے حکم کی گزرش کر رہے ہیں، جس کے تحت لوگ 5 دنوں میں اپیل دائر کر سکیں، کیونکہ اس کے بعد یہ عمل بند ہو جائے گا۔ اس پر جسٹس کانت نے کہا ہم صرف ان لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، جنہیں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ سینئر وکیل ہنساریا اور دویدی نے کہا کہ اگر کوئی ادارہ ایسے باتیں عدالت میں رکھ رہا ہے جہاں اس کا کوئی وجود نہیں ہے تو اس کے خلاف عدالت کو گمراہ کرنے کی سماعت نہیں ہونی چاہیے۔ دویدی نے کہا کہ یہاں جھوٹی معلومات اور دلیلیں دی گئی ہیں۔


اے ڈی آر کی جانب سے وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ عدالت لیگل سروس اتھارٹی سے چھان بین کرا لے، واضح ہو جائے گا کہ جو الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے۔ جسٹس باغچی نے کہا کہ یہ دستاویز کل سونپی گئی تھی۔ جب آپ دستاویز بنچ کو سونپتے ہیں تو یہ ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔ بھوشن نے کہا کہ مجھے یہ دستاویز ایک ذمہ دار شخص نے دیا تھا۔ اگر الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ کوئی مسئلہ ہے تو لیگل سروسز اتھارٹی پوچھ تاچھ کر سکتا ہے، کیونکہ نام اور پتہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری بات نہیں سنی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ نظر آ رہا ہے کہ حقائق غلط ہیں۔ جسٹس کانت نے کہا کہ لیگل سروسز اتھارٹی رضاکارانہ طور پر مدد فراہم کرے گا، ہدایات کی کوئی ضرورت نہیں ہے، 20 دیگر حلف نامے ہیں۔ جسٹس باغچی نے کہا کہ اس حلف نامے کے تجربہ سے ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ بقیہ 20 بھی صحیح ہیں؟ بھوشن نے کہا کہ یہ زبانی دعوے ہیں۔ جسٹس باغچی نے کہا کہ سب کچھ زبانی ہے۔ آپ کو دیکھنا چاہیے تھا کہ محمد شاہد کا نام ڈرافٹ رول میں تھا یا نہیں۔