’ایک چیز کا ذکر بار بار مت کیجئے!‘ بلقیس بانو معاملہ میں فوری نئی بنچ تشکیل دینے سے سپریم کورٹ کا انکار

بلقیس بانو کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی بنچ پر زور دیا کہ اس معاملے کی سماعت کے لیے ایک اور بنچ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے گجرات فسادات کی متاثرہ بلقیس بانو کی عرضی کی سماعت کے لیے فوری نئی بنچ تشکیل دینے سے انکار کر دیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور اہل خانہ کے قتل کے 11 مجرموں کو معافی پالیسی کے تحت رواں سال 15 اگست کو جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ ان سبھی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بلقیس نے گجرات حکومت کی معافی پالیسی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے تاکہ اس کے مجرموں کو واپس جیل بھیجا جا سکے۔

اس معاملے میں سپریم کورٹ کی جسٹس بیلہ ایم ترویدی نے منگل (13 دسمبر) کو بلقیس بانو کی عرضی کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ بلقیس بانو کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ شوبھا گپتا نے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ پر زور دیا کہ اس معاملے کی سماعت کے لیے ایک اور بنچ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ سی جے آئی نے کہا، ’’رٹ پٹیشن کو درج فہرست کیا جائے گا۔ براہ کرم ایک ہی بات کا بار بار ذکر نہ کریں۔‘‘


خیال رہے کہ 2002 میں گودھرا ٹرین جلانے کے بعد ہونے والے فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ واقعہ کے وقت بلقیس بانو کی عمر 21 سال تھی اور وہ 5 ماہ کی حاملہ بھی تھیں۔

کیس کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی گئی تھی اور سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت مہاراشٹر کی ایک عدالت میں منتقل کر دی۔ 21 جنوری 2008 کو ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کے بعد 11 مجرم اپنی سزا کے خلاف سب سے پہلے بامبے ہائی کورٹ گئے، جہاں مجرموں کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ پھر یہ سب سپریم کورٹ گئے، وہاں بھی ان کی عرضی مسترد کر دی گئی، لیکن 15 اگست کو گجرات حکومت کی معافی پالیسی کے تحت مجرموں کو گودھرا سب جیل سے رہا کر دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔