’دھنکھڑ کی ناساز طبیعت سے ان کی بیوی متفکر تھیں، لیکن استعفیٰ دے دیں گے یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘، بھتیجے کا انکشاف

جگدیپ دھنکھڑ کے بھتیجے ہریندر دھنکھڑ نے بتایا کہ اچانک استعفیٰ پر کسی کو یقین نہیں ہو رہا۔ ان کے آبائی گاؤں کٹھانا کے لوگوں کا لگاتار فون آ رہا ہے جو خیریت دریافت کر رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>جگدیپ دھنکھڑ کی فائل تصویر، آئی اے این ایس</p></div>

جگدیپ دھنکھڑ کی فائل تصویر، آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ہندوستان کے نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے جب سے استعفیٰ دیا ہے، ملک بھر میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ سیاسی شخصیات سے لے کر عام شہری تک ہر کوئی دھنکھڑ کے فیصلے سے حیران ہے۔ دھنکھڑ کے آبائی گاؤں کٹھانا کے لوگ بھی ششدر ہیں۔ 21 جولائی کو استعفیٰ کی خبر پھیلنے کے بعد گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کو فون کر اس خبر کو کنفرم کرنے میں مصروف نظر آئے۔ اس درمیان دھنکھڑ کے بھتیجے ہریندر دھنکھڑ نے ان کی طبیعت اور استعفیٰ سے متعلق کچھ اہم باتیں میڈیا کو بتائی ہیں۔ انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ جگدیپ دھنکھڑ کی طبیعت ناساز ضرور تھی، لیکن ایسا نہیں تھا کہ استعفیٰ کے بارے میں کوئی اندازہ لگا سکے۔

ہریندر دھنکھڑ کا کہنا ہے کہ جگدیپ دھنکھڑ کے استعفیٰ کی خبر کے بعد نہ صرف کٹھانا، بلکہ قریبی گاؤں سے بھی فون آ رہے ہیں۔ کسی کو بھی اس اچانک دیے گئے استعفیٰ پر یقین نہیں ہو رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ضرور سچ ہے کہ ان دنوں نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کی طبیعت ناساز تھی، جسے لے کر ان کی بیوی ڈاکٹر سدیش دھنکھڑ کافی فکر مند بھی تھیں، لیکن استعفیٰ بھی دیں گے، ایسا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔


ہریندر کے مطابق اسی ماہ کے پہلے ہفتہ میں جب نائب صدر کی بیوی ڈاکٹر سدیش دھنکھڑ گاؤں آئی تھیں تب وہ 3 دنوں تک رکی تھیں۔ گاؤں کے مندر بھی گئی تھیں اور تب انھوں نے باتوں ہی باتوں میں بتایا تھا کہ اب جگدیپ دھنکھڑ کا پہلے کسے زیادہ خیال رکھنا پڑے گا، کیونکہ ان کی صحت ٹھیک نہیں رہتی ہے۔ مارچ میں ان کے دل کا آپریشن ہوا تھا اور گزشتہ ماہ اتراکھنڈ میں انھیں سینے میں درد کی شکایت بھی ہوئی تھی۔

بہرحال، جگدیپ دھنکھڑ نے اپنے استعفیٰ کی وجہ صحت کو ترجیح دینا بتایا ہے، لیکن ان کے رشتہ داروں کو بھی یقین نہیں تھا کہ ناسازیٔ طبیعت کے سبب وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ سیاسی طبقہ میں تو زبردست ہنگامہ برپا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران جگدیپ دھنکھڑ کے استعفیٰ کو کسی دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔