تمام کوششوں کے باوجود جماعت اسلامی ہند اپنی شبیہ بدلنے میں ناکام

حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند چاہے کتنا بھی ہندوستان کے تمام طبقوں کے لئے کام کرنے کی بات کرتی رہے لیکن اس کی شبیہ ایک مسلم مذہبی تنطیم کی ہی ہے اور وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر قومی آواز</p></div>

تصویر قومی آواز

user

سید خرم رضا

ویسے تو جماعت اسلامی کا قیام غیر منقسم ہندوستان میں 1941 میں عمل میں آیا تھا لیکن تقسیم کے بعد آزاد ہندوستان میں رہ جانے والے جماعت کے ارکان 16 سے 18 اپریل 1948 کو الہ آباد میں جمع ہوئے اور یہاں انہوں نے جماعت اسلامی ہند کا قیام کیا اور مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی کو تنظیم کا پہلا صدر منتخب کیا۔ قیام کے بعد اپنی 75 سالہ جدو جہد کی تفصیل بتاتے ہوئے آج امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے جہاں اس پر روشنی ڈالی کہ ہندوستانی جماعت نے اس دواران کیا کچھ کیا، اس کی کیا ترجیحات رہیں اور وہ آگے کیا کچھ کر نے کا ارادہ رکھتی ہے، وہیں انہوں نے موجود صحافیوں سے مستقبل کے لئے مشورے مانگے۔

صحافیوں نے اپنے مشوروں میں جماعت کی موجودہ شبیہ، فرقہ وارانہ حیثیت، سوشل میڈیا پر تقریباً نہ کے برابر موجودگی جیسے مسائل پر روشنی ڈالی۔ لوگوں کو جماعت کے بارے معلومات نہ ہونے کو لے کر ایک صحافی نے کہا کہ ’’لوگ اس احاطہ میں پوچھتے ہیں کہ مولانا ارشد کب ملیں گے، الشفا مولانا سعد نے بنوایا ہے وغیرہ وغیرہ، یعنی لوگوں کو جماعت اور اس کے ذریعہ کئے گئے کاموں کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے اور اس کے لئے خود جماعت ذمہ دار ہے۔‘‘


سینئر صحافی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جماعت کی شبیہ مسلم فرقہ وارانہ تنظیم کی بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت چاہے کتنا بھی کہے لیکن اس کی شبیہ یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی تنظیم ہے اور مسلمانوں کے لئے کام کرتی ہے۔ آر ایس ایس سے موازنہ کرتے ہوئے ایک صحافی نے پوچھا کہ جماعت اسلامی ہند کو سنگھ جتنی مقبولیت کیوں حاصل نہیں ہوئی۔ زیادہ تر صحافیوں نے جماعت کے کام کی تو تعریف کی، لیکن یہ بھی کہا کہ جماعت کے اپنے کاموں کی تشہیر میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی ضرور رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند چاہے کتنا بھی ہندوستان کے تمام طبقوں کے لئے کام کرنے کی بات کرتی رہے لیکن اس کی شبیہ ایک مسلم مذہبی تنطیم کی ہی ہے اور وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتی۔ اس کے سیاسی کردار کو لے کر بھی لوگوں نے سوال اٹھائے اور کہا کہ ایک وقت وہ تھا جب یہ پارٹی ووٹ ڈالنے کے حق میں نہیں تھی لیکن اب باقائدہ یہ مشورہ دیتی ہے کہ رائے دہندگان کو اپنی رائے کا اظہار کس حلقے سے کس امیدوار کے حق میں کرنا چاہئے۔ سیاست میں اس طرح حصہ لینے سے اس کی شبیہ سیاسی بھی ہوگئی ہے اور متنازعہ بھی۔ واضح رہے جماعت کے کچھ لوگوں نے ’ویلفیئر پارٹی آف انڈیا‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بھی بنائی ہوئی ہے جو انتخابات میں حصہ بھی لیتی ہے۔


امیر جماعت سعادت اللہ حسینی نے اپنے مختصر سے جواب میں اعتراف کیا کہ تنظیم کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند دین کا صحیح تصور پیش کرتی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی شدت پسندی کے خلاف ہے۔ واضح رہے جماعت اسلامی ہند نے آزاد ہندوستان میں اپنے 75 سالہ سفر کے دوران بہت سے نشیب و فراض دیکھے ہیں اور ان کو عبور کیا ہے لیکن آج بھی اس کی شبیہ ایک مسلم مذہبی تنطیم سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے اور وہ آج بھی امریکی نواز کہلائی جاتی ہے۔ ایمرجنسی کے دوران جیل میں ایک ساتھ قید میں رہنے کی وجہ سے آر ایس ایس اور جماعت کو ایک ہی چشمے سے بھی دیکھا جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔