گئو رکشکوں نے رسید ہونے کے باوجود محمد شاکر کی بے رحمی سے کی پٹائی، دیکھیں ویڈیو

محمد شاکر کو زد و کوب کرنے والے لوگوں کے گروہ کی رہنمائی کرنے والے منوج ٹھاکر کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے، الٹے شاکر کے خلاف ہی پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔

تصویر ویڈیو گریب
تصویر ویڈیو گریب
user

قومی آوازبیورو

ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ کورونا وبا کے دوران میں ہندوتوا پسند افراد ماحول کو خراب کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دے رہے۔ تازہ معاملہ مراد آباد سے سامنے آیا ہے جہاں خود کو گئو رکشک (گائے کے محافظ) بتانے والے ایک گروپ نے مسلم نوجوان محمد شاکر کی بے رحمی کے ساتھ پٹھائی کر دی۔ اس پر گئوکشی کا الزام عائد کیا گیا، حالانکہ میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ شاکر کے پاس رسید موجود تھی۔

موصولہ خبروں کے مطابق شاکر گوشت کی نقل و حمل اور فروخت کا کام کرتا تھا اور اس کے پاس اس کی رسید بھی تھی۔ جب وہ سائیکل پر گوشت لے کر کہیں سے آ رہا تھا تو ایک گروہ نے اسے راستے میں ہی گھیر لیا۔ اس گروہ کی رہنمائی کرنے والا شخص خود کو ’گئو رکشک‘ کہہ رہا تھا۔ یوپی پولیس نے محمد شاکر کے بھائی کی شکایت کی بنیاد پر حملہ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے، حالانکہ ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ تاہم ملزمان نے متاثرہ شخص محمد شاکر کے خلاف جوابی مقدمہ بھی درج کر دیا ہے اور اس پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ ہیں جانوروں کو مارنا، کورونا انفیکشن پھیلنے کے امکان کے طور پر کام کرنا اور کوڈ لاک ڈاؤن رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرنا۔


ایک سینئر پولیس افسر نے اس واقعہ کے تعلق سے ’این ڈی ٹی وی‘ کو بتایا کہ شاکر کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن اسے جیل نہیں بھیجا گیا کیوں کہ اس کے خلاف دفعات قابل ضمانت ہیں۔ این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے شاکر کے کنبہ کے افراد نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فی الحال اس کا علاج گھر پر کیا جارہا ہے۔

اس پورے معاملے پر مرادآباد کے رکن پارلیمنٹ ایس ٹی حسن کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ انھوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مجھے پتہ چل گیا ہے کہ وہ (شاکر) ایک فیکٹری سے گوشت لا رہا تھا، اور اس کے پاس اس کی رسید بھی ہے۔ اس کے بعد بھی اسے مارا پیٹا گیا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گائے کے ذبیحہ کے نام پر اس نفرت کو روکا جانا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس شخص کو ہلاک نہیں کیا گیا ۔‘‘


حیرانی کی بات یہ ہے کہ منوج ٹھاکر، جو شاکر کو زدوکوب کرنے والے لوگوں کے گروہ کی رہنمائی کر رہے تھا، کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ مرادآباد پولیس چیف پربھاکر چودھری نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہمیں ایک ویڈیو ملی ہے جس میں گوشت بیچنے والے کو زدوکوب کیا جارہا ہے۔ ہم نے اس معاملے میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔ اس کیس میں پانچ سے چھ ملزمان ہیں، جن کا نام لکھا گیا ہے۔ ہم ان کی تلاش کر رہے ہیں اور انہیں جلد گرفتار کرلیں گے۔‘‘

پولیس کو ایک تحریری شکایت میں شاکر کے بھائی نے بتایا کہ جب وہ ایک اسکوٹر پر بھینس کا 50 کلو گوشت لا رہا تھا تو منوج ٹھاکر اور اس کے ساتھیوں نے اسے گھیر لیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملزموں نے پہلے شاکر سے 50000 روپئے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے اس کی پٹائی کی۔ پولیس کے پاس جانے کی دھمکی بھی انھوں نے دی۔


اس درمیان منوج ٹھاکر نے نامعلوم جگہ سے ایک بیان جاری کیا ہے جو ضلع کے مقامی صحافیوں کو بھیجا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے اس نوجوان کو روکنے کی کوشش کی، لیکن اس نے ہمیں اپنے اسکوٹر سے ٹکر مار دی۔ کسی شخص کو لاٹھیوں سے مارنا جرم ہے، لیکن کسی کو مارنے کی کوشش کرنا کیا جرم نہیں ہے؟ میں گائے کے ذبیحہ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن پولیس اب مجھے دھمکیاں دے رہی ہے۔ انتظامیہ مجھے ایک پولیس ٹیم دے، میں پورے ریکیٹ کا انکشاف کروں گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 May 2021, 6:11 PM