دہلی: خطرناک زہریلی ہوا کے سبب ہر 10 میں سے 4 افراد راجدھانی کو خیرباد کرنا چاہ رہے، سروے میں ہوا انکشاف
جب ایک شہر، جو کبھی مواقع کا مرکز مانا جاتا تھا، ’گیس چیمبر‘ میں تبدیل ہو جائے تو یہ نہ صرف صحت کا بلکہ ایک سنگین معاشی بحران کا بھی اشارہ ہے۔

سردیوں نے ایک بار پھر دستک دے دی ہے، اور اس کے ساتھ ہی دہلی-این سی آر کا آسمان زہریلی دھند کی چادر میں لپٹ گیا ہے۔ یہ اب کوئی چونکانے والی خبر نہیں ہے، بلکہ ایک سالانہ سانحہ بن گئی ہے، جس کے ساتھ کروڑوں لوگ ہر سال جینے کے لیے مجبور ہیں۔ لیکن یہ بحران اب ہمارے پھیپھڑوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ ہماری جیبوں، ہمارے کاموں اور ہمارے مستقبل پر براہ راست حملہ کر رہا ہے۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ ایک حالیہ سروے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس سروے کے مطابق دہلی میں رہنے والے ہر 10 میں سے 4 افراد (یعنی 40 فیصد) اس گھٹن کے ماحول سے بچنے کے لیے شہر ہی چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ یہ صرف ایک اعداد و شمار نہیں بلکہ اس مایوسی کا ثبوت ہے جو راجدھانی کی ہوا میں پھیل چکی ہے۔ جب ایک شہر، جو کبھی مواقع کا مرکز مانا جاتا تھا، ’گیس چیمبر‘ میں تبدیل ہو جائے تو یہ نہ صرف صحت کا بلکہ ایک سنگین معاشی بحران کا بھی اشارہ ہے۔
دہلی جسے اپنی صلاحیتوں اور مواقع کے لیے جانا جاتا تھا آج اس ساکھ کو کھونے کے دہانے پر ہے۔ حال ہی میں دہلی کے 17000 شہریوں پر کیے گئے ایک سروے نے اس کڑوی سچائی کو سامنے لا دیا ہے۔ اس میں شامل 40 فیصد لوگوں نے صاف طور پر کہا کہ وہ فضائی آلودگی اور اس سے صحت کے سنگین خطرات سے بچنے کے لیے دہلی سے باہر جانے کو ترجیح دیں گے۔ یہ ہجرت کی ذہنیت صرف معاشی طور پر خوشحال لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ ایک الگ مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ دہلی میں تقریباً 57 فیصد مہاجر مزدور بھی اب دہلی کے مقابلے اپنے آبائی شہروں میں رہنا زیادہ پسند کر رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک یہاں کی ہوا کا خراب معیار بھی ہے۔ یہ رجحان دہلی کے مستقبل کے لیے ایک بڑی وارننگ ہے۔ اگر ٹیلنٹ اور لیبر جو شہر کے 2 اہم ستون ہیں، اس سے منہ موڑنا شروع کر دیں تو ’ٹیلنٹ ہب‘ کے طور پر دہلی کی کشش ہمیشہ کے لیے ماند پڑ سکتی ہیں۔
یہ زہریلی ہوا نہ صرف ہماری صحت کو متاثر کر رہی ہے بلکہ دہلی کے خزانے کو بھی خالی کر رہی ہے۔ دہلی جو ملک کی سیاسی اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہے، اسے اس آلودگی کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 میں فضائی آلودگی نے دہلی کو 5.6 ارب ڈالر کا براہ راست اقتصادی نقصان پہنچایا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دہلی کو سالانہ اپنی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا 6 فیصد سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ چیمبر آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (سی ٹی آئی) کے چیئرمین برجیش گوئل کے مطابق آلودگی کی وجہ سے دہلی کے کاروبار کو روزانہ تقریباً 100 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ نقصان کئی سطحوں پر ہو رہا ہے۔ جب ہوا میں سانس لینا مشکل ہو تو لوگ گھروں سے نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کا اثر براہ راست صارفین کی معیشت پر پڑتا ہے۔ بازار ویران ہو جاتے ہیں اور خریداری ٹھپ ہو جاتی۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق صارفین کی آمدورفت میں کمی کی وجہ سے معیشت کو اربوں کا بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ یہی نہیں، موسم سرما دہلی کا سیاحتی موسم ہے۔ لیکن ’دنیا کی سب سے آلودہ راجدھانی‘ ہونے کی تصویر غیر ملکی سیاحوں کو دہلی سے دور کر رہی ہے۔ سیاحوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کی وجہ سے سیاحت کے شعبے کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ سی ٹی آئی کے مطابق جہاں روزانہ این سی آر سے 3 سے 4 لاکھ لوگ خریداری کے لیے دہلی آتے تھے، لیکن آلودگی کی وجہ سے یہ تعداد کم ہو کر ایک لاکھ رہ گئی ہے۔
آلودگی کا ایک اور تباہ کن اثر ہے جو اعداد و شمار میں نظر آتا ہے لیکن اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، وہ ہے ہماری فعالیت پر حملہ۔ جب ملازمین بیمار ہوں گے یا پوری صلاحیت کے ساتھ کام نہیں کر پائیں گے تو کمپنیوں کا منافع براہ راست متاثر ہوگا۔ ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں صرف آئی ٹی سیکٹر کو آلودگی کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں کمی کی وجہ سے سالانہ 1.3 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ جبکہ آجروں کو کام کے دنوں میں کمی کی وجہ سے سالانہ 6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن یہ سارا معاشی نقصان اس انسانی سانحہ کے مقابلے میں کم ہے جس کا ہندوستان کو ہر سال سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے ہندوستان میں 17 لاکھ لوگوں کی قبل از وقت اموات ہوئیں۔ یہ اس سال ہونے والی تمام اموات کا 18 فیصد تھا۔ ان قبل از وقت اموات سے معیشت کو 45 ارب ڈالر کا زبردست نقصان ہو رہا ہے۔
آلودگی کا مسئلہ کئی دہائیوں پرانا ہے لیکن ہمارے حل آج بھی فوری اور آدھے ادھورے ہیں۔ ہر سال سردیوں سے عین قبل تنظیمیں حرکت میں آتی ہیں، میٹنگیں منعقد ہوتی ہیں، اور کچھ عارضی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال حال ہی میں کی گئی مصنوعی بارش کی کوشش ہے۔ اس پر کل 3.21 کروڑ روپے خرچ ہوئے، جو کہ پانچ ٹرائلز کے لیے مختص بجٹ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہر ٹرائل پر اوسطاً 64 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ اس کے باوجود دہلی کے بڑے حصے میں مناسب مصنوعی بارش نہیں ہو پائی اور کچھ علاقوں میں صرف ہلکی بارش ہوئی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مسئلے کی جڑ پر کام کرنے کے بجائے ہر سال مہنگے لیکن بے اثر تجربات پر انحصار کرتے ہیں۔ موسم گرما آتے ہی ان تمام وعدوں اور کوششوں کو روک دیا جاتا ہے۔ تمام شمالی ہندوستان، جو زراعت کے لیے سب سے زیادہ زرخیز ، وہ بھی اس شدید آلودگی کی زد میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک اس مسئلے کا مستقل اور پورے سال کا حل تلاش نہیں کیا جاتا، تب تک دہلی-این سی آر کی ہوا کا معیار، صحت اور معیشت تینوں متاثر ہوتی رہے گی۔