کورونا بحران: ملّی تنظیمیں قوم کی مدد کے لئے آگے آئیں

عبد الغفار کا کہنا ہے کہ مساجد اور مدارس کو کووڈ مراکز میں تبدیل کرنا بہتر متبادل ہے اور ان مراکز میں بلا تفریق مذہب و ملت سبھی مریضوں کو داخل کیا جانا چاہیے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

ہندوستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور ملک کے کئی علاقوں میں از سر نو لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔ ایک روز قبل جمعرات کو اس وبا کے سبب دم توڑنے والے افراد کی تعدد 1129 تھی۔ حالات انتہائی سنگین ہو چکے ہیں، سرکاری نظام درہم برہم ہو چکا ہے، اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے اور گھنٹوں فون کرنے کے بعد بھی ایمبولینس نہیں آتی۔ اس بات سے حالات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بدھ کے روز اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں واقع کنگ جارج میڈیکل کالج میں کورونا کے سینکڑوں مریض پہنچے، تو اسپتال میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اسپتال کے ملازمین اپنی جان بچاکر چھپنے لگے اور گھنٹوں تک مریضوں کی خبر نہیں لی گئی۔ یہ لوگ گھنٹوں لائن میں لگے رہے اور آخر میں تھک کر زمین پر بیٹھ گئے۔ میرٹھ سے جمیل ملک کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بہنوئی کے لئے 4 گھنٹے تک ایمبولینس کو کال کرتے رہے لیکن وہ نہیں آئی، آخر اپنی نجی کار میں انہیں لے جا کر اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔

کورونا بحران: ملّی تنظیمیں قوم کی مدد کے لئے آگے آئیں

ان سب حالات کے لئے حکومت ذمہ دار ہو سکتی ہے لیکن صرف حکومت کے بھروسے بیٹھے رہنا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے اور انفرادی طور پر ہر کسی کو حالات کی بہتری کے لئے تعاون کرنا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خدمت خلق کا دعوی کرنے والی تمام تنظیمیں لوگوں کی ہر طرح سے مدد کریں۔ چونکہ حکومت وقت مسلمانوں کو سہولیات دینے میں تعصب سے کام لیتی ہے لہذا ملی تنظیموں کے کاندھوں پر اس وقت بڑی ذمہ داری ہے۔


جمعیۃ علما ہند (محمود مدنی) کا دعوی ہے کہ اس نے حالات کی نزاکت کو سمجھا ہے اور وہ روز اول سے کورونا کے خلاف مہم میں پیش پیش رہی ہے۔ جمعیۃ کے ترجمان مولانا عظیم اللہ کہتے ہیں، ’’ہم نے کورونا کے تئیں لوگوں کو بیدار کیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ماسک اور سینیٹائیزر تقسیم کیے ہیں۔ دہلی حکومت کو گیس سلینڈر فراہم کیے ہیں۔ ہم ریاست کرناٹک میں 10 ایمبولینسز چلوا رہے ہیں۔ حکومت کو اس وبائی دور میں ہم سے جس طرح کی مدد درکار ہے ہم وہ فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘

ادھر، امارت شرعیہ بہار کے ترجمان مولانا شبلی نعمان کا کہنا ہے، ’’شروعات میں لوگوں کو غلط فہمی ہوئی تھی مگر اب تصویر صاف ہو چکی ہے۔ ہم نے سرکاری رہنما ہدایات کو لوگوں کے سامنے پیش کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ اس وبا سے محفوظ رہنے کے لئے ضروری احتیاط کا خیال رکھیں۔ ہم نے ماسک اور سینیٹائیزر تقسیم کیے ہیں اور اگر حکومت کو ضرورت پڑتی ہے تو ہم مدارس اسلامیہ کو کووڈ سینٹر میں تبدیل کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔‘‘


میرٹھ کے طبی خدمت گار عبد الغفار شروع ہی سے مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اب صرف اتنے ہی سے کام نہیں چلے گا۔ سرکاری اسپتالوں میں جگہ کم پڑتی جا رہی ہے اور نجی اسپتال بہت زیادہ فیس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اتر پردیش حکومت نے بغیر علامات والے مریضوں کو گھر پر ہی آئسولیٹ کرنے کو کہہ دیا ہے مگر ایسا تو وہی کر پائیں گے جن کے گھروں میں کئی کمرے ہیں، جہاں ایک کمرے میں چار لوگ رہتے ہوں وہاں ہوم آئسولیشن کامیاب نہیں ہو پائے گا۔‘‘

عبد الغفار نے مزید کہا، ’’مساجد اور مدارس کو کووڈ مراکز میں تبدیل کرنا بہتر متبادل ہے اور ان مراکز میں بلا تفریق مذہب و ملت سبھی مریضوں کو داخل کیا جانا چاہیے۔ جمعیۃ علما ہند، جماعت اسلامی اور امارت شرعیہ جیسی تنظیموں کو ماسک، سینیٹائیزر اور تقاریر والے انداز سے باہر آنا ہوگا۔‘‘


ہندوستان میں جس طرح سے کورونا کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے اب یہ کہنے میں گریز نہیں ہونا چاہیے کہ ملک اب اس وبا کے تیسرے مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے اور انفیکشن سماجی طور پر پھیل (کمیونٹی اسپریڈنگ) رہا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے گنجان محلوں میں صورت حال نازک ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ دیوبند کے اخلاق احمد کہتے ہیں، ’’حیرانی ہوتی ہے کہ ایسے وقت میں بھی کچھ مذہبی رہنماؤں نے خط لکھا ہے کہ عید الاضحی کی نماز اجتماعی طور پر ادا کرنے کی اجازت دی جائے! انہیں یہ نظر نہیں آ رہا کہ سہارنپور جیسے شہر میں وینٹی لیٹر کی سہولت کا فقدان ہے۔ اس کے بجائے یہ لوگ اسپتالوں کو وینٹی لیٹر اور آکسیجن کے سلینڈر کا عطیہ کیوں نہیں کرتے! اللہ تو اس سے بھی خوش ہوگا!‘‘

جمعیۃ علما ہند ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے فعال تنظیم ہے اور اس میں لاکھوں کارکنان ہیں۔ ہر مشکل وقت میں مسلمان اس تنظیم کی طرف امید سے دیکھتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ حکومت کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں ہے اور وہ لاک ڈاؤن میں ہمسایوں سے مدد لے رہا تھا۔ لوگوں کے دل میں حکومت کے تئیں کئی طرح کے خدشات ہیں۔ ایسے حالات بالخصوص شمالی ہندوستان کے مسلمان جمعۃ علما ہند سے امید لگا کر بیٹھے ہیں۔


شرعی امور کے ماہر سپریم کورٹ کے وکیل فیروز آفتاب کہتے ہیں، ’’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا کی وبا نے بھیانک روپ اختیار کر لیا ہے۔ لہذا ملک کے تمام ذمہ دار شہریوں کو چاہیے کہ وہ اس بیماری کے خلاف متحد ہو جائیں۔ حکومت کی خامیوں پر بات کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ کورونا سے نمٹنے میں ملی تنظیموں کا کردار اہم ہو سکتا ہے، انہیں تعاون کرنا چاہیے۔’‘

ادھر دیوبند کے مولانا شعیب عالم قاسمی کہتے ہیں ’’تبلیغ والے معاملہ میں میڈیا کے ایک طبقہ نے تمام مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی جو سازش کی ہے اس سے مسلمانوں کے دلوں کو تکلیف پہنچی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے دلوں میں سخت غم و غصہ ہے، ورنہ دار العلوم نے اپنے مدرسے کو آئسولیشن سینٹر میں تبدیل کرنے تک کی پیش کش کی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ ملی تنظیموں نے تاحال کورونا کے خلاف مہم میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے مگر آر ایس ایس جیسی تنظموں کی کاوشیں بھی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تمام شہری اس وبا کا مقابلہ کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Jul 2020, 3:11 PM