پنجاب واقعہ پر بی جے پی لیڈران کے بیانات سے کانگریس برہم، بتایا ہاتھرس واقعہ کا فرق

پنجاب میں ایک بچی سے عصمت دری اور قتل معاملہ کو طول دیے جانے پر کانگریس نے بی جے پی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس نے دلائل سامنے رکھتے ہوئے بتایا ہے کہ پنجاب اور ہاتھرس واقعہ میں کیا فرق ہے۔

سشمتا دیو، تصویر نیشنل ہیرالڈ
سشمتا دیو، تصویر نیشنل ہیرالڈ
user

تنویر

کانگریس نے بی جے پی کے سینئر لیڈروں اور مرکزی وزراء پر آج سخت طور پر نشانہ بنایا۔ کانگریس ترجمان سشمتا دیو نے کہا کہ بی جے پی کے لیڈر اور مرکزی وزیر جس طرح سے پنجاب کے واقعہ پر سیاست کر رہے ہیں، وہ ان کی منشا ظاہر کرتا ہے۔ انھوں اس تعلق سے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ "عصمت دری ایک ایسا ایشو ہے جس میں کسی بھی ریاست میں ہو یا کوئی بھی پارٹی ہو، اس ریاست میں کسی کی بھی حکومت ہو، سب کو افسوس ہوتا ہے۔ چاہے وہ نربھیا ہو، چاہے وہ اناؤ ہو، چاہے وہ ہاتھرس کی بیٹی ہو، چاہے وہ ملک میں کہیں بھی ہو، راجستھان ہو، ہریانہ ہو۔ ہر جگہ افسوس ہوتا ہے۔"

سشمتا دیو نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ "افسوسناک امر یہ ہے کہ بی جے پی کے تین لیڈروں نرملا سیتارمن جی، پرکاش جاوڈیکر جی اور ہرش وردھن جی نے 14 ستمبر سے، جب سے ہاتھرس کا واقعہ ہوا ہے، پہلی بار خواتین سیکورٹی پر کچھ بولا ہے، اور جو بھی بولا اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں راہل گاندھی جی اور پرینکا گاندھی جی کے ہاتھرس جانے پر اعتراض ہے۔" انھوں نے مزید کہا کہ "آخر ہاتھرس واقعہ کے وقت یہ لیڈر کہاں تھے۔ اناؤ کا واقعہ ہوا تو کہاں تھے۔ بی جے پی لیڈر صرف اس لیے اس ایشو پر منھ کھول رہے ہیں کیونکہ بہار میں انتخاب ہے۔"


میڈیا کے سامنے سشمتا دیو نے سلسلہ وار طریقے سے پنجاب کے واقعہ اور ہاتھرس واقعہ میں کچھ فرق بھی سامنے رکھے جو اس طرح ہیں:

  • جب ہاتھرس کی بیٹی کی عصمت دری ہوئی، وہ ایف آئی آر درج کرانے گئی۔ اجتماعی عصمت دری کا معاملہ تھا، آپ نے ایف آئی آر میں عصمت دری کا سیکشن ڈالنے سے منع کر دیا یو پی پولس نے۔ پنجاب کی حکومت نے کیا کیا، 36 گھنٹوں میں قصوروار ہوئے، تعزیرات ہند کی دفعہ اور پاکسو کی دفعات کو ایف آئی آر میں شامل کیا گیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور ڈی جی پی نے خود اس کیس کی نگرانی کی اور وزیر اعلیٰ نے خود سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا۔

  • 10 دن تک آپ نے ہاتھرس متاثرہ کو علی گڑھ میں رکھا، 11 دن آپ نے ایف ایس ایل کی رپورٹ نہیں منگوائی۔ جو ایف ایس ایل کی رپورٹ 24 گھنٹے کے اندر عصمت دری متاثرہ کے جسم سے لینا ہوتا ہے، آپ نے 11 دن تک اس ثبوت کو نہیں لیا۔ اور پنجاب کی حکومت نے کیا کیا، پنجاب کی حکومت نے 24 گھنٹے کے اندر پوسٹ مارٹم بھی کیا اور ایف ایس ایل کی رپورٹ بھی اس متاثرہ کی لاش سے لی۔

  • پنجاب میں پورے ضلع کا انتظامیہ، پوری ریاست کی انتظامیہ آج متاثرہ کنبہ کے ساتھ پنجاب میں کھڑے ہیں اور اتر پردیش میں ضلع مجسٹریٹ نے کیا کیا، اتر پردیش کے ضلع مجسٹریٹ نے ہاتھرس کی بیٹی کے گھر والوں کو ڈرا کر، دھمکا کر کہا کہ میڈیا تو آج ہے کل چلی جائے گی، آپ کو ہمارے ساتھ رہنا ہے۔

  • ضلع مجسٹریٹ نے تو اتر پردیش میں نہ ہی صرف ہاتھرس کی بیٹی کے گھر والوں کو دھمکایا، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نے تو ساری حدیں پار کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ جو ملزمین ہیں انھوں نے عصمت دری کی ہی نہیں۔ پنجاب کی پولس نے کیا کیا، پنجاب پولس نے پاکسو کی دفعات لگائی۔ یہ وجہ ہے کہ ہاتھرس میں سب کو جانے کی ضرورت ہے اور پنجاب میں حکومت اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔

  • اتر پردیش میں آپ نے میڈیا کو ہاتھرس کے اس واقعہ میں پہنچنے ہی نہیں دیا۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے یہاں میرے میڈیا کے دوست ہیں کہ پنجاب کی پولس یا پنجاب کی انتظامیہ نے کسی میڈیا والے کو روکا، کہیں لاٹھی چارج ہوئی؟ بالکل نہیں ہوا۔

  • پنجاب کی حکومت نے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے متاثرہ کی جو آخری رسومات ادا کی، اس کی پوری فیملی وہاں پر موجود تھی۔ اور گاؤں کے لوگوں نے پنجاب کی حکومت پر بھروسہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انھیں سخت سے سخت سزا ملزم کے خلاف چاہیے۔ یو پی حکومت نے کیا کیا، ہاتھرس متاثرہ کو رات کی تاریکی میں بغیر کسی فیملی کے رکن کے وہاں ہوتے ہوئے، گاؤں کے لوگوں کو روکتے ہوئے ہاتھرس کی بیٹی کی آخری رسومات ادا کروا دی۔ اس لیے راہل گاندھی جی اور پرینکا گاندھی جی کا ہاتھرس جانا ضروری تھا۔

  • الٰہ آباد ہائی کورٹ نے حکومت اور انتظامیہ کو ہاتھرس کیس کو لے کر پھٹکار لگائی، کیا اس کے علاوہ بھی کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ پنجاب اور ہاتھرس کے واقعہ میں کیا فرق ہے۔

سشمتا دیو نے پریس کانفرنس کے دوران مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن کا نام لیتے ہوئے کہا کہ "نرملا جی، آج مہاشٹمی ہے، ہم مہاگوری کی شکل میں کنیا پوجن کرتے ہیں، لیکن آپ ایک خاتون ہو کر، میں افسوس کے ساتھ کہتی ہوں کہ آپ نے پھر ایک خاتون کی بے عزتی کی، ایک لڑکی کی بے عزتی کی، وہ لڑکی ہاتھرس کی بیٹی ہے۔ آج آپ نے پھر نظر انداز کیا ہے فیروز آباد کی بیٹی کو جسے جرائم پیشوں نے گھر میں گھس کر گولی مار دی۔ گیارہویں میں پڑھنے والی اس بچی کا جرم یہ تھا کہ اس نے اپنے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کی مخالفت کی تھی۔" انھوں نے مزید کہا کہ "آپ نے آج ہمارے لیڈروں پر انگلی اٹھائی، جو ہاتھرس کی بیٹی کے خلاف ہوتی ناانصافی، اس کی فیملی کے خلاف ہوتی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا چاہتے تھے۔ ان کی لڑائی لڑنا چاہتے تھے۔ اس لیے میں پرکاش جاوڈیکر جی، ہرش وردھن جی اور نرملا سیتارمن جی کو بولنا چاہتی ہوں کہ آپ عوامی نمائندہ نہیں ہیں، آپ ایک سوچ کے غلام ہیں اور آپ غلام ہی رہیں گے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔