لوک سبھا انتخاب میں استعمال 37 فیصد وی وی پیٹ مشینوں میں خرابی کی خبر پر کانگریس نے الیکشن کمیشن سے پوچھے 8 سوالات

کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ 37 فیصد وی وی پیٹ مشینیں خراب پائی گئی ہیں، یہ مشینیں 2019 لوک سبھا انتخاب اور دوسرے انتخابات کے دوران بھی استعمال کی گئیں، ایسے میں ذمہ دار اداروں پر سوال کھڑا ہوتا ہے۔

ای وی ایم، علامتی تصویر آئی اے این ایس
ای وی ایم، علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

کانگریس نے خراب وی وی پیٹ مشینوں کو لے کر انتخابی کمیشن سے 8 سوالات کیے ہیں۔ کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ 37 فیصد وی وی پیٹ مشینیں خراب پائی گئی ہیں۔ یہ مشینیں 2019 کے لوک سبھا انتخاب اور دوسرے انتخابات کے دوران استعمال کی گئی ہیں۔ ایسے میں حکومت سمیت دوسرے ذمہ دار اداروں پر سوال کھڑا ہوتا ہے۔ پارٹی نے کہا کہ انتخاب کی غیر جانبداری میں عوام کے بھروسے کو بحال کرنے کے لیے انتخابی کمیشن کو وی وی پیٹ کو لے کر اٹھے سنگین سوالات کے جواب پوری شفافیت کے ساتھ دینے چاہئیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو اس سے عوام کے من میں انتخابی نظام کو لے کر شبہات بھی پیدا ہوں گے، جو جمہوری نظام کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

میڈیا رپورٹ کی بنیاد پر کانگریس نے کہا ہے کہ جن مشینوں میں خرابی پائی گئی ہے ان کی تعداد 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں استعمال کی گئی مشینوں کا ایک تہائی (37 فیصد) سے زیادہ ہے۔ اس سے 2019 کے لوک سبھا انتخاب اور اس کے بعد ہوئے اسمبلی انتخابات میں ووٹرس کے ووٹ متاثر ہونے کے اندیشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کانگریس کے قومی ترجمان پون کھیڑا نے الزام لگایا کہ ایک ہی سیریز کے سیریل نمبر والی ہزاروں مشینوں کے خراب ہونے پر بھی ایس او پی پر عمل نہیں کیا گیا۔ انھوں نے پوچھا کہ حکومت بتائے کہ وہ کیا چھپانا چاہتی ہے؟


انتخابی کمیشن کا خط جاری کرتے ہوئے کانگریس نے کہا ہے کہ 6.5 لاکھ وی وی پیٹ مشینوں کو خراب پایا گیا ہے اور انھیں مرمت کے لیے مینوفیکچرر کے پاس بھیجا ہے۔ کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ وی وی پیٹ مشینیں جدید ’ایم 3‘ شکل کی ہیں جنھیں پہلی بار 2018 میں انتخابی کمیشن کے ذریعہ لایا گیا تھا اور اس کے بعد کے انتخابات میں مشین کا استعمال کیا گیا۔ 2021 میں انتخابی کمیشن نے مانا کہ کچھ مشینیں خراب ہوئی ہیں۔ کیا ان کا استعمال بعد کے انتخابات میں ہوا؟

کانگریس نے الزام لگایا کہ ان مشینوں کو واپس منگائے جانے کی وجہ کے بارے میں سیاسی پارٹیوں کو تفصیل سے جانکاری نہیں دی گئی ہے۔ پون کھیڑا نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارے زمینی سطح کے کارکنان ہمیں بتاتے ہیں کہ انھیں مطلع کیا گیا تھا کہ ایسی سرگرمی انتخابی افسران کے ذریعہ عام عمل کی شکل میں کی جا رہی ہے۔ لیکن ہمیں انتخابی کمیشن کے ذریعہ مطلع کیے جانے کی جگہ میڈیا رپورٹس آنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ ایشو کتنا بڑا ہے۔


ان سنگین ایشوز پر غور کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس نے مفاد عامہ میں انتخابی کمیشن سے 8 اہم سوالات پوچھے ہیں، جو اس طرح ہیں:

1. کیا انتخابی کمیشن وی وی پیٹ مشینوں میں آ رہی خرابیوں کی پہچان کرنے میں اہل رہا ہے؟

2. اگر ہاں، تو کیا انتخابی کمیشن نے ان سبھی خرابیوں کو ٹھیک کر دیا ہے جن کی پہچان ہوئی تھی؟

3. جب کلیکشن کا حکم 2021 میں ہی جاری ہو چکا تھا تب وی وی پیٹ مشینوں کی خرابی میں اصلاح اور پہچان میں تاخیر کیوں ہوئی؟

4. کیا انتخابی کمیشن ان سبھی مشینوں کی شناخت کرنے میں اہل رہا ہے جن میں خرابی کی خبر دی گئی ہے، یعنی کیا سبھی وی وی پیٹ مشینوں مین خرابی کی جانچ کی گئی ہے؟

5. وی وی پیٹ مشینوں کے لیے ہونے والی پہلی سطح کی جانچ میں خرابی کا پتہ کیوں نہیں چل پایا؟

6. کیا کمیشن نے ڈی ای او اور سی ای او سے کوئی رپورٹ مانگی ہے جو ان اسپیشل مشینوں کے انچارج تھے، جنھیں خراب قرار دیا گیا ہے؟

7. الیکشن کمیشن مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کون سے اضافی سیکورٹی طریقوں کو نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے، جن کے انتخاب پر دور رس اثرات ہوتے ہیں؟

8. وی وی پیٹ مشینوں کے طریقہ کار کے سلسلے میں اٹھائے گئے موجودہ ایشوز کو دیکھتے ہوئے کیا انتخابی کمیشن آئندہ انتخابات میں ان مشینوں کا استعمال کرنا جاری رکھے گا؟

کانگریس نے کہا کہ ’’انتخابی عمل میں ہر ہندوستانی کا بھروسہ اور ایمانداری ہمارے لیے جمہوریت کا اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی شکل میں ہماری شبیہ کے لیے بلکہ ہر شہری کو ایک آواز دینے میں بھی اہم ہے۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے جو حکومت کی پالیسیوں کو متاثر کرتی ہے۔ آج مودی حکومت پارلیمنٹ میں بحث کو دبا رہی ہے، اپوزیشن، سماجی کارکنان اور صحافیوں کے خلاف قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے، عدلیہ پر دباؤ بنا رہی ہے، اور میڈیا کو ڈرا رہی ہے۔ ایسے نازک وقت میں ووٹ کی طاقت اور قیمت مزید بڑھ جاتی ہے، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسے ایسے ہی رہنے دینا چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔