ممبئی میں عید کی تیاریاں اپنے شباب پر، چاند رات میں بازاروں و سڑکوں پر لوگوں کی زبردست بھیڑ

جیسے ہی رمضان کا مقدس مہینہ ختم ہوا، ممبئی کے مسلمان عید کی آمد کا جشن منانے لگے، بازاروں میں خوب بھیڑ ہے اور اس مرتبہ تو انھیں گزشتہ سالوں کی طرح کورونا مرض کا بھی خوف دکھائی نہیں دے رہا۔

<div class="paragraphs"><p>ممبئی میں عید کی خریداری کرتے ہوئے لوگ، تصویر قاضی محمد راغب</p></div>

ممبئی میں عید کی خریداری کرتے ہوئے لوگ، تصویر قاضی محمد راغب

user

سنتوشی گلاب کلی مشرا

جیسے ہی جمعہ کو اسلامی مقدس مہینہ رمضان کے آخری دن سورج غروب ہوا، ممبئی عید الفطر کا تہوار منانے کے لیے پوری طرح تیار دکھائی دیا۔ وبائی امراض کے بعد کے اثرات نے پچھلے سال بھی عید کا مزہ خراب کر دیا تھا، حالانکہ نمازیں سبھی جگہ پڑھی گئی تھیں۔ اس مرتبہ رمضان المبارک کے آخری دور میں شدید گرمی کے باوجود مسلمانوں نے نمازیں جوش و خروش کے ساتھ ادا کیں۔ رمضان کے آخری جمعہ کی نماز میں آج سبھی مساجد میں زبردست بھیڑ دیکھنے کو ملی۔ جمعہ کے وقت پورے شہر میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی تہوار ہو۔

رمضان کی آخری شام محمد علی روڈ پر لوگوں کی بھیڑ دیکھنے لائق تھی۔ عید کی آمد کا لوگ جشن منا رہے تھے اور اس بھیڑ میں غیر مسلموں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی جو لذیز پکوان سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہ بھیڑ اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ سبھی کو معلوم تھا کہ اب یہ لذیز کھانے آئندہ سال رمضان میں ہی دستیاب ہو سکیں گے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر قاضی محمد راغب</p></div>

تصویر قاضی محمد راغب


ممبئی کے ناگپاڑا علاقہ کے ایک تاجر شاہد شیخ نے عید کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’بنیادی طور پر اسلام میں دو تہوار ہیں جن کی قرآن نے وضاحت کی ہے۔ ایک ہے عید الفطر، اور دوسرا عید الاضحی۔ فطر کا لفظی معنی روہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ اس طرح عید الفطر رمضان کے مستقل روزے کو توڑنے کی طرف اشارہ ہے۔ عید الفطر رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے اختتام کی نشان دہی ہے۔ یہ ایک مقدس تہوار ہے جسے پوری دنیا کے مسلمان مناتے ہیں۔‘‘

شاہد شیخ نے یہ بھی کہا کہ ان کی بیمار والدہ (82 سالہ) رمضان کے مقدس مہینے میں کی جانے والی دعاؤں پر بے پناہ یقین رکھتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’خرابی صحت کی وجہ سے ڈاکٹروں نے میری والدہ کو روزہ رکھنے سے گریز کرنے کو کہا۔ تاہم انھوں نے بچپن سے ہی رمضان کا اہتمام کیا ہے، اس لیے اس سال بھی رمضان کی عبادتیں جاری رکھیں۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ سب کی خیر و عافیت کے لیے دعاؤں کا ہے۔ میری ماں کی وجہ سے میرے ذہن پر بھی اس کا بہت اثر ہوا ہے۔ اگر آپ کا پڑوسی بھوکا رہے تو سحری اور افطار بے معنی ہیں۔ اس لیے یہ تہوار نہ صرف جسموں کو بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں کو بھی صاف کرتا ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>تصویر قاضی محمد راغب</p></div>

تصویر قاضی محمد راغب


ندیم انصاری (جنھوں نے رمضان کے روزے رکھے) کا کہنا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمان عید کا تہوار بطور انعام منائیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ رمضان میں اللہ کے بندوں نے کھانے پینے سے پرہیز کیا، انھوں اُن سبھی چیزوں سے پرہیز کیا جو دیگر مہینوں میں جائز ہوتی ہیں۔ اور پھر ایک ماہ کی مشقت کے بعد عید الفطر کی آمد ہوتی ہے۔ اس موقع پر رشتہ داروں اور دوست و احباب کے ساتھ مل کر خوشی منانی چاہیے۔‘‘ ندیم انصاری یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فقراء و مساکین کو جشن میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے، مسلمان عید کی نماز پڑھنے سے پہلے چندہ یا زکوٰۃ دیتے ہیں۔‘‘

بہرحال، عید ایک موقع ہے جب باضابطہ آپ دعوتوں کا اہتمام کر سکتے ہیں، رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات، ان سے تحائف کے تبادلے کرتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں اور رشتہ داروں کی قبروں پر جا کر ان کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔