’منی پور کے وزیر اعلیٰ فوراً استعفیٰ دیں، ان کے رہتے ریاست میں امن ممکن نہیں‘، کانگریس کا مطالبہ

منی پور میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے اوکرام ایبوبی سنگھ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو فوراً بدلا جانا چاہیے کیونکہ ریاستی حکومت اثردار طریقے سے کام کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

جئے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
جئے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

منی پور میں تشدد کو لے کر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی صدارت میں تین گھنٹے تک چلی کل جماعتی میٹنگ کے بعد کانگریس نے ایک بار پھر وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی پر سوال اٹھایا اور وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ میٹنگ میں شامل منی پور کے سابق وزیر اعلیٰ اوکرام ایبوبی سنگھ نے دہلی میں ہفتہ کو پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج وزیر داخلہ نے منی پور تشدد کو لے کر قومی سطح پر ایک میٹنگ منعقد کی۔ میں کانگریس نمائندہ کی شکل میں وہاں تھا۔ میں نے 50 دنوں کے وقفہ کے بعد اس میٹنگ کے انعقاد کے لیے امت شاہ کا شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اگر وزیر اعظم اس کی صدارت کریں گے تو اس طرح کی میٹنگ مناسب ہوگی۔‘‘

ایبوبی سنگھ نے کہا کہ چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود منی پور اسٹرٹیجک طور سے اہم ہے کیونکہ اس کی سرحدیں دیگر ممالک کے ساتھ بھی لگتی ہیں۔ اسمبلی میں کانگریس کے لیڈر ایبوبی سنگھ نے وزیر اعظم پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ جب منی پور جل رہا ہے، تب بھی انھوں نے 50 دن کے بعد ایک ٹوئٹ تک نہیں کیا ہے یا ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔ ایبوبی سنگھ نے سوال کیا کہ انھوں نے منی پور کے لیے ایک بھی لفظ کیوں نہیں بولا۔


اس درمیان کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ 15 سال تک ریاست پر حکومت کرنے والے وزیر اعلیٰ کو تین گھنٹے طویل میٹنگ کے دوران بولنے کے لیے مناسب وقت نہیں ملا۔ انھیں صرف 7 سے 8 منٹ کا وقت ملا۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ اگر کوئی منی پور کو اچھی طرح سے جانتا ہے تو وہ ایبوبی سنگھ ہیں اور وہ اب بھی رکن اسمبلی ہیں۔ جون 2001 میں منی پور جل رہا تھا، جب اٹل بہاری واجپئی وزیر اعلیٰ تھے اور اس کے بعد منی پور پٹری پر آ گیا کیونکہ ایبوبی سنگھ نے ایک مستحکم حکومت دی۔ اور تین گھنٹے کی میٹنگ میں انھیں صرف سات آٹھ منٹ دینا افسوسناک اور بے عزتی والا ہے۔

اپنی پارٹی کے 8 مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے جئے رام رمیش نے کہا کہ اس کل جماعتی میٹنگ کی صدارت وزیر اعظم کو کرنی چاہیے تھی، جنھوں نے گزشتہ 50 دن میں منی پور پر ایک بھی لفظ نہیں کہا ہے۔ بہتر ہوتا اگر اس کی صدارت وزیر اعظم کے ذریعہ کی گئی ہوتی اور یہ کل جماعتی میٹنگ امپھال میں منعقد کی گئی ہوتی۔ اس سے منی پور کے لوگوں کو واضح پیغام جاتا کہ ان کا درد اور بحران بھی قومی تکلیف کا موضوع ہے۔ انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سبھی مسلح گروپوں کو بغیر کسی معاہدہ کے فوراً منسوخ کیا جانا چاہیے۔


منی پور میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت پر نشانہ سادھتے ہوئے جئے رام رمیش نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو فوراً بدلا جانا چاہیے کیونکہ ریاستی حکومت اثردار طریقے سے کام کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ خود دو بار عوامی طور سے حالات کو سنبھالنے اور بحران سے نمٹنے میں اپنی ناکامی قبول کر چکے ہیں۔ انھوں نے لوگوں سے معافی بھی مانگی ہے۔ انھوں نے آگے کہا کہ 11 مارچ کو وزیر اعلیٰ نے کوکی مفادات کے حامی ہونے کا دعویٰ کرنے والے کچھ شورش پسند گروپوں کے ساتھ ’آپریشن‘ کی معطلی پر سہ فریقی سمجھوتے کے لیے ریاستی حکومت کے عزم کو یکطرفہ واپس لے لیا۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ان کے اس قدم کو بعد میں مرکزی وزارت داخلہ نے خارج کر دیا تھا، لیکن تب تک کافی نقصان ہو چکا تھا۔ یہ غلطیوں کی سیریز میں ایک اہم مثال ہے۔

جئے رام رمیش نے مطالبہ کیا کہ منی پور کے اتحاد اور علاقائی سالمیت کے ساتھ کسی بھی طرح سے سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہر طبقہ کی شکایتوں کو سنجیدگی سے سنا جانا چاہیے اور مخاطب کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے مرکزی حکومت سے یہ یقینی کرنے کے لیے بھی کہا کہ دونوں قومی شاہراہوں کو ہر وقت کھلا اور محفوظ رکھتے ہوئے ضروری سامانوں کی دستیابی یقینی کی جائے اور متاثرہ لوگوں کے لیے راحت، باز آبادکاری اور روزی روٹی کا پیکیج بلاتاخیر تیار کیا جائے۔ جئے رام رمیش نے کہا کہ اعلان کردہ راحت پیکیج بے حد ناکافی ہے۔ کانگریس لیڈروں کا یہ تبصرہ منی پور کے حالات اور حکومت نے کیا قدم اٹھائے ہیں، اس پر تبادلہ خیال کے لیے یہاں مرکزی وزیر داخلہ کی صدارت میں ہوئی کل جماعتی میٹنگ کے بعد آیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔