’بہار کو ہجرت نہیں، تشکیل نو چاہیے‘، کانگریس نے ریاست میں صنعتوں کو پھر سے مضبوط کرنے کا عزم کیا ظاہر
کانگریس نے عزم ظاہر کیا کہ بہار میں صنعت، روزگار اور خود کفیلی کی وہ روایت پھر سے مضبوط کی جائے گی، جسے بی جے پی-جے ڈی یو حکومت نے گزشتہ 2 دہائیوں میں منظم طریقے سے اور قصداً کمزور کیا ہے۔

کانگریس کے سرکردہ لیڈران بہار میں انتخابی تشہیر کر رہے ہیں اور عوام سے مہاگٹھ بندھن کی حکومت تشکیل دینے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ اس درمیان کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ایک طویل سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا ہے کہ کانگریس نے کس طرح بہار میں صنعتیں اور روزگار کے مواقع فراہم کیے تھے، لیکن گزشتہ 20 سالوں کی این ڈی اے حکومت نے منظم طریقے سے بہار کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
جئے رام رمیش نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’20 سالوں کی اپنی حکومت میں بی جے پی-جے ڈی یو نے بے پناہ صنعتی امکانات والے بہار میں صرف اور صرف ہجرت کی صنعت قائم کی۔ بہار کو ترقی اور صنعت کے قومی نقشہ سے تقریباً مٹا دیا گیا۔ کبھی چینی، پیپر، جوٹ، سلک اور ڈیری کے لیے مشہور بہار آج بے روزگاری اور ہجرت کا عادی بن چکا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’آزادی کے بعد غیر منقسم بہار میں کانگریس کی حکومتوں نے کئی صنعتی یونٹس قائم کیں، جنھوں نے بہار کو ملک کے صنعتی نقشہ پر مضبوطی سے قائم کیا۔ اس دور میں ہیوی انڈسٹری، بجلی، ڈیری اور ریل پروڈکشن کے ارد گرد بہار میں ترقی کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا تھا۔‘‘
جئے رام رمیش نے کانگریس حکومت میں قائم کردہ کچھ اہم صنعتی یونٹس کی جانکاری بھی اپنی پوسٹ میں دی، جو اس طرح ہیں:
برونی آئل ریفائنری: بہار کو بجلی پروڈکشن کا مرکز بنایا
سندری اور برونی کھاد کارخانہ: ملک کی کھاد سیکورٹی میں مددگار بنا
برونی ڈیری: آج کی سدھا ڈیری کی بنیاد
ریل پہیہ کارخانہ، بیلا
ڈیزل لوکوموٹیو کارخانہ، مڑھورا
نوی نگر تھرمل پروجیکٹ
سدھا کوآپریٹو ڈیری نیٹورک
مذکورہ بالا مثالیں پیش کرتے ہوئے جئے رام رمیش لکھتے ہیں کہ ’’ایک طرف کانگریس حکومتوں نے ویژن کے ساتھ بہار میں صنعتی بنیاد کھڑی کی، وہیں بی جے پی-جے ڈی یو کی حکومت نے ایک بھی اہم صنعت قائم نہیں کی، اس کے برعکس اپنی بدعنوان اور غیر منظم پالیسیوں سے موجود صنعتوں کو بھی چوپٹ کر دیا۔‘‘ اس کی بھی کچھ مثالیں جئے رام رمیش نے پیش کیں، جو اس طرح ہیں:
اشوک پیپر مل: 400 ایکڑ کا یہ احاطہ اب کھنڈر بن چکا ہے۔ مشینیں سڑ گئی ہیں، مزدور بے سہارا ہو گئے ہیں۔
کبھی بہار میں 33 سے زیادہ چینی ملیں تھیں، جن کا ملک کے مجموعی چینی پروڈکشن میں تقریباً 40 فیصد شراکت داری تھی۔ آج ان میں سے بیشتر بند پڑی ہیں۔ سکری، ریم، لوہٹ، موتی پور، بن منکھی، موتیہاری... مشینیں ٹرکوں میں بھر کر کباڑ میں فروخت کر دی گئیں۔
جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ہر انتخاب میں انھیں از سر نو شروع کرانے کا وعدہ تو کرتے ہیں، لیکن ان کے ہر وعدے کے بعد مزید چینی ملیں بند ہوتی گئیں۔ کانگریس لیڈر کا کہنا ہے کہ جوٹ صنعت کا بھی یہی حال ہوا۔ سمستی پور کی رامیشور جوٹ مل 2017 سے بند ہے۔ اسی طرح بھاگلپور کا مشہور سلک صنعت دم توڑ رہا ہے۔ اسپن سلک فیکٹری سالوں سے بند پڑا ہے۔ نتیجۂ کار 95 فیصد بنکر کنبہ قرض اور غریبی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
کانگریس جنرل سکریٹری کا کہنا ہے کہ ’’وزیر اعلیٰ کہتے ہیں بڑی صنعتیں تو سمندر کنارے لگتی ہیں۔ مرکزی وزیر کہتے ہیں بہار میں صنعت کے لیے زمین نہیں۔ لیکن وزیر اعظم کے چہیتے صنعت کاروں کو ایک روپے فی ایکڑ زمین دی جاتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’آج 3 کروڑ سے زیادہ لوگ روزگار کے لیے بہار چھوڑ چکے ہیں۔ کٹیہار، کشن گنج، پورنیہ، ارریہ جیسے بہار کے سرحدی علاقوں سے مزدور بنگال اور آسام تک دہاڑی کر رہے ہیں۔‘‘ جئے رام رمیش نے موجودہ حالات کے پیش نظر بی جے پی-جے ڈی یو حکومت سے 3 انتہائی اہم سوالات بھی پوچھے ہیں:
جب کانگریس نے بغیر سمندر کے بہار میں برونی، سندری، ہٹیا اور بوکارو جیسے ہیوی انڈسٹری قائم کر دیے، تو آج صنعتیں لگانا ناممکن کیوں بتایا جا رہا ہے؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں بہار کو صنعت سے پاک کر دیا گیا اور صرف ہجرت پر مبنی معیشت بچی ہے؟
کیا یہ بھی درست نہیں کہ جن ملوں نے کسانوں، مزدوروں اور نوجوانوں کو روزگار دیا، وہ ملیں بی جے پی-جےڈی یو کی غلط پالیسیوں اور لاپروائی کا شکار ہو گئیں؟
ان سوالات کو پیش کرنے کے بعد کانگریس لیڈر نے بہار میں ایک بار پھر صنعتوں کو مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’کانگریس کا عزم ہے کہ بہار میں صنعت، روزگار اور خود کفالت کی وہ روایت پھر سے مضبوط کی جائے، جسے بی جے پی-جے ڈی یو حکومت نے گزشتہ 2 دہائیوں میں منظم طریقہ سے اور قصداً کمزور کیا ہے۔‘‘ آخر میں وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’بہار کو ہجرت نہیں، تشکیل نو چاہیے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔