اللہ کا پرشکوہ گھر خانہ کعبہ، جس کو دیکھتے ہی عازمین حج کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں

شاہ سلمان کی خصوصی دعوت پر دنیا کے تقریبا 90 ممالک کے تقریبا 1300 افراد امسال شاہی مہمان بن کر حج وعمرہ کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ان 1300 افراد میں تقریبا 50 عازمین حج ہندوستان کے مختلف صوبوں کے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>حج 2023 / Getty Images</p></div>

حج 2023 / Getty Images

user

ندیم احمد

13 نومبر 2012 کا واقعہ ہے۔ مکہ کے عزیزیہ سے طواف وداع کے لئے میں مسجد الحرام میں ابھی داخل ہوا ہی تھا کہ اچانک دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ والدہ کے ساتھ مطاف میں طواف کرتے ہوئے جب میں خانہ کعبہ کی طرف دیکھتا تو دیکھتا ہی رہ جاتا۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑتے اور میں خود کو کسی طرح تسلی دیتا ہوا خانہ کعبہ کا طواف کرنے میں مصروف ہو جاتا۔ یہ کرب تھا خانہ کعبہ سے عنقریب جدا ہونے کا، یہ غم تھا مسجدالحرام سے تھوڑی ہی دیر میں رخصت ہونے کا، یہ حزن و ملال تھا مکہ مکرمہ سے بچھڑنے کا جہاں میں نے کم وبیش ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزارا تھا۔ دراصل، اس سال میں اپنی والدہ کے ہمراہ ذاتی طور پر حج وعمرہ کے سفر پر یہاں آیا ہوا تھا۔حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے مدینہ اور مکہ میں تقریبا 43 روز کے قیام کے بعد اب مجھے اس مقدس سرزمین سے واپس اپنے ملک کے لئے رخت سفر باندھنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ طواف وداع کے وقت خانہ کعبہ پر نظر پڑنے پر بے اختیار آنسو نکل پڑتے اور اس سے جدائی کا غم ستاتا رہتا۔ دل میں اکثر یہ خیال پیدا ہوتا کہ پتہ نہیں اب زندگی میں دوبارہ یہاں کی زیارت نصیب ہو گی یا نہیں۔ لیکن اللہ رب العالمین کا لاکھ لاکھ فضل وکرم اور احسان ہے کہ تقریبا 10سال کے وقفے کے بعد اس نے مجھے ایک بار پھر حج وعمرہ کی ادائیگی کے لئے دوبارہ اپنے گھر کی زیارت کا شرف بخشا۔

حج اور عمرہ جیسی مقدس عبادت کے لئے دوبارہ یہ سفر21 جون 2023 کو شروع ہوا جو انشااللہ 8 جولائی کو اختتام پذیر ہو گا۔ دراصل، خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی دعوت پر دنیا بھر سے جن خوش قسمت افراد کو رواں سال حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہو رہی ہے، ان میں راقم الحروف بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ شاہ سلمان کی خصوصی دعوت پر دنیا کے تقریبا 90 ممالک کے تقریبا 1300 فراد امسال شاہی مہمان بن کر حج وعمرہ کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ان 1300 افراد میں تقریبا 50 عازمین حج ہندوستان کے مختلف صوبوں کے ہیں۔


اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں واقع انٹیگرل یونیورسیٹی کے بانی اور چانسلر ڈاکٹر سید وسیم اختر بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں سات سال پہلے ذاتی طور پر حج کرنے کے بعد امسال شاہی مہمان کے طور پر دوبارہ حج وعمرہ کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہاں کا جو روحانی منظر ہے وہ دل کو چھو لینے والا ہے۔ میں اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ سات سال پہلے اور آج کے یہاں کے ماحول میں کافی فرق ہے۔ پہلے ہم بہ آسانی حرم شریف میں نماز اور طواف کی ادائیگی کے لئے داخل ہو جاتے تھے۔ لیکن، اس سال کثرت ازدحام کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔ بس اللہ کا شکر ہے کہ عمرہ کی ادائیگی ہم نے مطاف میں بہ آسانی مکمل کر لی‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے یہ دعا بھی کی کہ مسلمانوں اور اسلام کا وقار بلند ہو اور وہ اپنے ملک کی تعمیر ترقی میں اپنا اہم رول ادا کریں تاکہ ہمارا ملک جسے اللہ نے تمام نعمتوں سے نوازا ہے، دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ کہیں کچھ ہے، کہیں کچھ نہیں ہے۔ کہیں پٹرولیم کی ندیاں بہہ رہی ہیں تو کہیں پانی کی قلت ہے۔ کہیں چھ مہینے کا دن ہے، کہیں چھ مہینے کی رات ہے۔ لیکن اللہ نے یہاں برابر دن و رات، موسم، پھول پتیاں، چرند وپرند، چشمے، میدان وپہاڑ الغرض ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ آج بھی اگر ہم اپنی قدروں کو زندہ رکھیں تو ہمارا ملک دوبارہ جنت نظیر بن سکتا ہے اور آج کے دور میں جن کو بڑی طاقتیں کہا جاتا ہے وہ ہمارے آگے سرنگوں ہوں گی‘‘۔

پوری دنیا کے لوگوں کے ایک جگہ اس طرح سے جمع ہوتے دیکھنا انتہائی خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ یہاں برصغیر ہندو پاک سے آئے عازمین حج کی ایک بڑی تعداد ہے تو وہیں ایرانیوں، بنگلہ دیشیوں اور افریقی ملکوں کے عازمین کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ جبکہ کچھ ملکوں کے الگ الگ گروپ ہوتے ہیں اور ان سبھی کو بیک وقت طواف کرتے دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ اللہ کا پرشکوہ گھر خانہ کعبہ کو دیکھتے ہی عازمین حج کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ کوئی طواف کر رہا ہے، کوئی حجر اسود کو چوم رہا ہے، کوئی مناجات میں محو ہے تو کوئی نماز ادا کر رہا ہے۔ کوئی رو رہا ہے تو کوئی گڑگڑا رہا ہے۔ کوئی صفا ومروہ کی سعی کر رہا ہے تو کوئی آب زمزم سے خود کو سیراب کر رہا ہے۔ غرضیکہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کے گھر میں عبادت وغیرہ میں مصروف عمل ہے۔


سینٹر فار سوشل اینڈ ایجوکیشنل اوئیرنیس، لکھنؤ کے ڈائریکٹر اور مختلف اخبارات وجرائد کے مستقل کالم نگار ذکی نور عظیم ندوی بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں شاہی مہمان کے طور پر اس سال حج وعمرہ کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’بچپن میں شاہی مہمان کے طور پر حج سے متعلق باتیں سنا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ رواں سال اس سے فیضیاب ہونے کی سعادت مجھے بھی عطا فرمائی‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ ایک ایسا اعلیٰ ترین معیاری وفد ہوتا ہے جس میں مختلف یونیورسٹیوں کے بانیان، وائس چانسلرز، پروفیسرز، تعلیمی، سماجی اور دعوتی میدان میں سرگرم اداروں کے ذمہ دار اور اہم صحافتی شخصیات یہاں تک کہ انفرادی سطح پر بعض سرگرم اور منظم انداز میں کام کرنے والوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور انہیں سفر حج اور اس کی ادائیگی کے درمیان ایسی معیاری سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جس کا عام عازمین حج شاید تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘۔

شاہی مہمانوں کی خاطر ومدارات کے حوالے سے ذکی نور ندوی مزید کہتے ہیں ’’مکہ ومدینہ جیسے مقدس ترین شہروں میں معیاری ہوٹلوں میں قیام، مختلف النوع عمدہ غذائیں، آمد ورفت کے لئے نقل وحمل کے معقول انتظام اور یہاں تک کہ تاریخی مقامات کی زیارت مختلف رہنمائی کرنے والے افراد کی نگرانی میں کروائی جاتی ہے جس میں اپنے ملکوں میں اعلیٰ ترین خدمات وکردار کے حامل افراد کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور ان سے فیضیاب ہونے کا ایسا نادر موقع ملتا ہے جس کا تصور بھی محال ہے‘‘۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں ’’ایک اور قابل ذکر بلکہ میرے لئے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حج میں جانور کی قربانی بھی مطلوب ہے، لیکن اس وفد میں شامل افراد کی طرف سے اس فریضے کی ادائیگی کا کام حکومت سعودی عرب اپنی طرف سے انجام دیتی ہے‘‘۔


جذبات اورلاکھوں عازمین حج کےاس سمندر میں ایک دوسرے سے بچھڑ جانا بھی کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے۔ مہاراشٹر سے آئے ایک عازم حج تو اپنی اہلیہ سے ہی بچھڑ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ مکہ پہنچنے کے بعد جب وہ پہلی بار طواف کے لئے مسجدالحرام میں پہنچے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے تو بہت زیادہ بھیڑ کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ پریشان ہوا اور بالآخر آٹھ گھنٹے بعد میں اپنی اہلیہ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو پایا۔

شاہی مہمانوں میں شامل روزنامہ سیاسی تقدیر کے مدیر محمد مستقیم شدت جذبات سے مغلوب ہو کر کہتے ہیں کہ دنیا کے ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ خانہ کعبہ کی زیارت کرے۔ ہم لوگ خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے ہمیں یہ سعادت نصیب فرمائی اور ہم شاہی مہمان کے طور پر یہاں آئے۔ وہ کہتے ہیں ’’سعودی حکومت کی طرف سے کئے جانے والے انتظامات لاجواب ہیں۔ سعودی حکومت کی طرف سے سے لاکھوں عازمین حج کو جو سہولیات بہم پہنچائی جا رہی ہیں اور جس خوش اسلوبی کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہے، اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ ہم خادم الحرمین الشریفین اور پوری انتظامیہ کے بہترین انتظام وانصرام کے لئے تہہ دل سے ممنون ہیں۔


اپنی بات ختم کرتے ہوئے ذکی نور عظیم ندوی کہتے ہیں ’’ان تمام تر انتظامات اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس اہم فریضہ کے موقع پر مدعو کرنا اگر ایک طرف حکومت سعودی عرب کی طرف سے ان کا اعزاز ہے تو دوسری طرف ان افراد کو امت کے تئیں ذمہ داری کا احساس دلانے کی ایک ایسی قابل ستائش کوشش ہے جس کے لئے حکومت سعودی عرب دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اجرعظیم کی مستحق ہے۔ امت مسلمہ کو ان کی اس قابل ستائش موقف کی تائید اور امت کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کو تحسین کی نظر سے دیکھ کر اس کا اعتراف کرنا چاہئے‘‘۔

اور اس طرح سے ایک شاہی مہمان کے طور پر اگر حج کی ادائیگی اور اس پر اللہ کی طرف سے بے شمار رحمت، مغفرت اور عنایت، یہاں تک کہ جنت کے حصول کی توقع بڑھتی ہے تو حکومت سعودی عرب کے اس فیاضانہ نظام کو دیکھتے ہوئے یہ احساس بھی بڑھتا ہے کہ کس طرح اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر شخص حسب استطاعت اپنے اپنے ذرائع استعمال کر سکتا ہے۔

مکہ مکرمہ سے براہ راست ندیم احمد کی ایکسکلوزیو رپورٹ

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔