قائدین ملت: بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے!... ظفر آغا

بی جے پی کی حکمت عملی ہی یہی رہی ہے کہ پہلے مسلمان کو شرعی معاملات پر چھیڑو تاکہ وہ جذبات میں سڑکوں پر اترے۔ جب وہ مذہبی نعروں کے ساتھ شور مچائے تو ہندوؤں کو یہ باور کراؤ کہ یہ ہندو دھرم کا دشمن ہے

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

ظفر آغا

پتہ نہیں عقل آئی یا حالات نے مجبور کر دیا۔ شاید دونوں کا ہی اثر ہے۔ آثار تو یہی نظر آتے ہیں کہ کچھ عقل تو آئی۔ یہاں ذکر ہو رہا ہے ملک کی ایک مشہور ملی تنظیم کے سربراہ کا۔ انھوں نے چند روز قبل یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں ایک اہم بیان جاری کیا۔ اس بیان کی دو سب سے اہم باتیں تھیں۔ ان کا کہنا ہے مسلمان حکومت ہند کی یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں متوقع قدم کی مخالفت کریں گے، لیکن کسی عالم دین نے جو غالباً پہلی بار کہا ہے وہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ ان کا مسلمانوں کو یہ مشورہ ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کا تعلق ہر مذہب اور قوم سے ہے، اس لیے مسلمانوں کو اکیلے اس معاملے میں سڑکوں پر نہیں اترنا چاہیے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ان کی لائن مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی مان لی۔ یہ تقریباً تیس برسوں میں پہلی بار ہوا کہ کسی بھی مذہبی ایشو پر علما یا پرسنل لاء بورڈ نے جذباتی موقف نہیں اپنایا۔ ورنہ سنگھ اور بی جے پی کی طرف سے جہاں مسلمانوں کے شرعی ایشو کو چھیڑا گیا، بس وہاں ’اسلام خطرے میں‘ اور ملت کو سڑکوں پر احتجاج جا شروع۔ اور پھر ملت نعرۂ تکبیر سے لیس جدوجہد کو تیار سڑکوں اور ریلیوں میں اکٹھا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بی جے پی کی دلی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ مذہبی معاملات میں مسلمان زیادہ سے زیادہ تعداد میں سڑکوں پر نکلے۔ نتیجہ کیا ہوتا تھا، کچھ ہی عرصے بعد وشو ہندو پریشد کی جانب سے جوابی کارروائی شروع ہوتی تھی۔ ذرا سی مدت میں فسادات، لوٹ پاٹ سب کچھ بپا اور نقصان میں مسلمان۔

سنہ 1985 میں شاہ بانو ایشو رہا ہو، یا پھر سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے فوراً بعد اگر آپ مسلم تحریکوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو مسلم قیادت کا یہی رول نظر آئے گا۔ تین طلاق کے ایشو پر مسلم پرسنل لاء کے جذباتی بیانات اور اکثر احتجاج بھی کون بھول سکتا ہے۔ پھر سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی جذباتی ریلیاں بھی کون بھول سکتا ہے۔ ’اکابرین ملت‘ بابری مسجد کے تحفظ میں جان قربان کرنے کو تیار نظر آتے تھے۔ ظاہر ہے کہ پھر ’قوم‘ تو کچھ دو قدم آگے ہی ہوگی۔ سڑکوں پر نعرۂ تکبیر اور ’لے کے رہیں گے بابری مسجد‘ جیسے نعروں کی گونج۔ سنہ 1947 میں سنتے ہیں ایسے ہی غیر منقسم ہندوستان کی سڑکوں پر ’لے کر رہیں گے پاکستان‘ نعروں کی گونج رہتی تھی۔ ہوا کیا، ہندو-مسلمان دونوں مارے گئے، لیکن بڑے خسارے میں کون رہا! ہندوستانی مسلمان اس بٹوارے کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے۔ ایسے میں جب لوگ ’لے کر رہیں گے بابری مسجد‘ جیسے نعروں کے ساتھ سڑکوں پر نکلے تو کچھ عرصے بعد ہندو بھی ’جئے شری رام‘ اور ’لے کر رہیں گے رام مندر‘ کے عزم کے ساتھ سڑکوں پر نکلا۔ نتیجہ کیا ہوا، اس سے سب واقف ہیں۔ اس کا نقصان ’ملت‘ آج تک بھگت رہی ہے۔


دراصل بی جے پی کی حکمت عملی ہی یہی رہی ہے کہ پہلے مسلمان کو شرعی معاملات پر چھیڑو تاکہ وہ جذبات میں سڑکوں پر اترے۔ جب وہ مذہبی نعروں کے ساتھ شور مچائے تو ہندوؤں کو یہ باور کراؤ کہ یہ (مسلمان) ہندو دھرم کے لیے دشمن اور خطرہ ہے۔ جب مسلمان بابری مسجد کی مخالفت میں جان دینے کی بات کرے گا تو عام ہندو کو تو یہی لگے گا کہ یہ تو ’رام دشمن‘ ہے۔ اب ہم کو بھی اپنے دھرم کی ’رکشا‘ میں کھڑا ہونا چاہیے۔ اور بس یہیں سے ہندو اپنے ’محافظ‘ بی جے پی کے پرچم تلے متحد، اور اس کا ووٹ چناؤ میں بی جے پی کے حق میں۔ اس طرح مسلم قیادت کی غلطیوں نے بی جے پی کو بی جے پی بنا دیا۔ اب تو سب جانتے ہیں کہ ملک ہندو راشٹر بن چکا ہے۔

جب کوئی قوم لگاتار پٹنے لگتی ہے تو ایک دن وہ بھی آتا ہے کہ اس کی آنکھیں کھلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ سنہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان سے مسلمانوں کی آنکھیں کھلنی شروع ہوئیں۔ ایک بڑے مسلم طبقے کو یہ سمجھ میں آنے لگا کہ اگر اب بھی وہی کیا جو بابری مسجد اور تین طلاق میں کیا تھا تو حشر اس سے بھی زیادہ برا ہوگا۔ چنانچہ جذباتی مسلم قائدین، جس میں بڑی تعداد علماء کی تھی، وہ مسلم عوام میں مقبولیت کھونے لگے۔ کیونکہ مسلمانوں مسجد تو نہیں ملی اور جو نقصان ہوا وہ سب پہ ظاہر تھا۔ چنانچہ ایسی قیادت سے مسلم عوام گریز کرنے لگی۔ قائدین تو عوام سے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں۔ چنانچہ اب انھوں نے جذبات سے گریز کرنا شروع کر دیا ہے اور سڑکوں پر نہ اترنے کا عہد کیا ہے۔

الغرض کچھ بھی ہو، کچھ ہوش کے ناخن تو لیے۔ لب و لباب یہ کہ قائدین کہیں یا نہ کہیں، عقل مندی اسی میں ہے کہ ہر صورت حال میں سڑکوں پر اترنے سے گریز کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Jun 2023, 11:25 AM