پنجاب میں عآپ بکھراؤ کی طرف گامزن، مزید ایک رکن اسمبلی نے دیا استعفیٰ

پنجاب اسمبلی کے 2017 کے انتخاب میں 20 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے والی عآپ نے اہم اپوزیشن پارٹی کا درجہ حاصل کیا تھا، لیکن اس بار حالت کچھ مختلف ہے، عآپ کو اب تک 6 اراکین اسمبلی الوداع کہہ چکے ہیں۔

تصویر ٹوئٹر @INCPunjab
تصویر ٹوئٹر @INCPunjab
user

امریک

پنجاب اسمبلی کے 2017 کے انتخاب میں 20 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے والی عآپ نے اہم اپوزیشن پارٹی کا درجہ حاصل کیا تھا، لیکن اس بار حالت کچھ مختلف ہے، عآپ کو اب تک 6 اراکین اسمبلی الوداع کہہ چکے ہیں۔ تازہ نام بھٹنڈا دیہی حلقہ سے رکن اسمبلی روپندر کور روبی کا ہے۔ عآپ سے استعفیٰ دینے کے بعد وہ کانگریس میں شامل ہو گئیں۔ انھیں وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنّی، کانگریس ریاستی صدر نوجوت سنگھ سدھو، وزیر مالیات منپریت سنگھ بادل، وزیر ٹرانسپورٹ امرندر سنگھ راجہ وڈنگ نے مکمل ضابطہ کے ساتھ پارٹی میں شامل کروایا۔

اس موقع پر روبی نے عآپ قیادت پر تلخ حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھگونت مان کو وزیر اعلیٰ کا چہرہ بنائے جانے کی لڑائی لڑ رہی تھیں۔ بیشتر پارٹی اراکین بھی ایسا چاہتے تھے، سبھی نے باقاعدہ میٹنگ کر تجویز پاس کرنے کے لیے بات بھی کی۔ لیکن پارٹی ہائی کمان کے خوف سے ایسا کرنے کی ہمت نہیں کر سکے۔ روپندر کور روبی نے کہا کہ عآپ اصولوں سے بھٹک گئی ہے اور اس میں اب عام آدمی کے لیے جگہ نہیں ہے۔ جب روبی نے عآپ سے استعفیٰ دیا تو ریاست کے سیاسی گلیاروں میں قیاس لگائے جا رہے تھے کہ وہ شرومنی اکالی دل میں شامل ہوں گی۔ لیکن انھوں نے کانگریس کا انتخاب کیا۔ اس تعلق سے وہ کہتی ہیں کہ ’’پارٹی صدر سونیا گاندھی خاتون ہیں، اور پرینکا گاندھی نے اتر پردیش میں 40 فیصد کوٹہ خواتین کو دیا ہے۔ میں ٹکٹ کے لیے کانگریس میں شامل نہیں ہوئی ہوں، بلکہ اس لیے آئی ہوں کہ یہ پارٹی خواتین کی پوری عزت دے رہی ہے۔‘‘


واضح رہے کہ روپندر کور روبی سے پہلے عآپ کے رکن اسمبلی سکھپال سنگھ کھیہرا، ایچ ایس پھولکا، بلدیو سنگھ، پرمل سنگھ خالصا اور جگدیو سنگھ پارٹی قیادت سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ اب رونی کے استعفیٰ کے بعد اسمبلی میں اہم اپوزیشن پارٹی کا درجہ رکھنے والی عآپ اقلیت میں آ گئی ہے۔ غیر مطمئن، لیکن پارٹی میں بنے ہوئے عآپ رکن اسمبلی کنور سندھو نے ٹوئٹ کر کہا ہے کہ ’’مجھے اپنی پارٹی کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہو رہا ہے۔ ہم نے محنت کی اور 2017 میں 100 سیٹیں جیتنے کا ہدف رکھا، لیکن 20 جیت پائے۔ کیا آپ نے اب بھی کوئی سبق نہیں سیکھا؟ کیا اس حالت کی کوئی اخلاقی ذمہ داری لے گا۔‘‘

روپندر کور روبی کے اسعفیٰ کے بعد اپوزیشن لیڈر ہرپال سنگھ چیما نے الزام عائد کیا کہ انھیں پارٹی سے ٹکٹ ملنے کا امکان کم تھا، اس لیے انھوں نے پارٹی چھوڑی۔ ان کے اس بیان پر روبی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ’’جہاں تک ٹکٹ کی بات ہے، تو چیما میرے خلاف الیکشن لڑ کر دیکھ لیں۔ وہ نہ پنجاب کے لوگوں کے لیے آواز اٹھا سکے اور نہ بھگونت مان کے لیے۔‘‘


کہا جا رہا ہے کہ بھگونت مان بھی اندر سے عآپ قیادت سے خفا ہیں۔ بھگونت اور ریاستی یونٹ کے کئی اراکین اسمبلی اور لیڈر چاہتے ہیں کہ ہائی کمان ریاست میں وزیر اعلیٰ کے چہرہ کا اعلان کرے، لیکن پچھلی بار کی طرح اس بار بھی اروند کیجریوال اس سے پرہیز کر رہے ہیں۔ جب بھی وہ پنجاب آتے ہیں تو اس سوال کو سرے سے درکنار کر دیتے ہیں۔ یہ مقامی لیڈروں کو بہت ناگوار گزرتا ہے۔ عآپ کے ایک رکن اسمبلی نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر کہا کہ کیجریوال کا یہ رویہ تاناشاہی والا ہے۔ ووٹر کس بھروسے ہمیں ووٹ کریں۔ ووٹروں کو پتہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پارٹی اکثریت میں آتی ہے تو حکومت کا مکھیا مقامی لیڈر ہوگا یا باہری۔

عآپ کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ پارٹی قیادت میں کسی کی بھی نہیں سنی جا رہی۔ گزشتہ بار سیٹیں بڑھ سکتی تھیں، لیکن دہلی سے آئے لوگوں نے سارا ماحول بگاڑ دیا۔ انھیں پنجاب کے ایتھوس (ذہنی موسم اور تہذیب) کی ذرا بھی سمجھ نہیں۔ بھروسے مند ذرائع کے مطابق عآپ کے کچھ دیگر رکن اسمبلی بھی کانگریس اور بادلوں کی سرپرستی والے شرومنی اکالی دل کے رابطے میں ہیں، اور کسی بھی وقت عآپ کو الوداع کہہ کر دونوں میں سے کسی ایک پارٹی کا دامن تھام سکتے ہیں۔ اس درمیان دونوں پارٹیوں کے سینئر لیڈران کا کہنا ہے کہ عآپ کا کوئی بھی رکن اسمبلی، لیڈر یا کارکن پارٹی چھوڑ کر آنا چاہے تو ان کا استقبال ہے۔


حال کے واقعات سے ایک بات تو پوری طرح واضح ہے کہ کم از کم پنجاب میں تو عآپ میں انتشار دیکھنے کو مل رہا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ رکن اسمبلی روپندر کور روبی جس دن کانگریس میں شامل ہوئیں، اسی دن عآپ سپریمو اروند کیجریوال کا پنجاب دورہ مجوزہ تھا، لیکن اچانک ملتوی ہوگیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔