ہندو دوست کی جان بچانے کے لیے مسلم شخص کڈنی دینے کو تیار، ہندو-مسلم اتحاد کی بہترین مثال

اچنتیہ کا کہنا ہے کہ ’’ہلسو محمد نے میری جان بچانے کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کا فیصلہ کیا، میری فیملی ان کا ہمیشہ شکرگزار رہے گی، اگر وہ آگے نہیں آتے تو میری موت کے بعد میری فیملی برباد ہو جاتی۔‘‘

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر

بڑھتے ہندو-مسلم منافرت کے ماحول میں بھی ہندوستان کی گنگا-جمنی تہذیب کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تازہ معاملہ مغربی بنگال کے شمالی دیناج پور ضلع کا ہے جہاں ایک مسلم شخص نے اپنے ہندو دوست کی زندگی بچانے کے لیے اپنی کڈنی عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حال ہی میں جب ہسلو محمد نامی شخص نے ریاست کے محکمہ صحت میں درخواست دے کر اعضاء عطیہ کی منظوری طلب کی، تو ضابطہ کے مطبق محکمہ صحت نے مقامی پولیس کو یہ جانچ کرنے کے لیے بھیجا کہ وہ اپنی کڈنی غیر قانونی طریقے سے پیسے کے بدلے تو عطیہ نہیں کر رہا۔ پولیس جانچ میں کسی طرح کے معاشی سودے سے انکار کیا گیا۔ ایک پولیس افسر نے بتایا کہ جلد ہی اس بارے میں رپورٹ محکمہ صحت کو بھیجی جائے گی۔

انگریزی روزنامہ ’نیو انڈین ایکسپریس‘ کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ہسلو محمد اور اچنتیہ بسواس چھ سال پہلے دوست بنے تھے، جب وہ ایک چھوٹی سے کمپنی کے ایجنٹ کی شکل میں کام کرتے تھے۔ دو سال قبل ہسلو نے ملازمت چھوڑ دی اور اپنا خود کا کاروبار شروع کیا۔ وقت کے ساتھ دونوں میں دوستی گہری ہو گئی۔ ایک دن جب ہسلو کو پتہ چلا کہ اس کا عزیز دوست پریشانی میں مبتلا ہے تو وہ اس کی مدد کے لیے آگے آیا۔ ہسلو کا کہنا ہے کہ ’’جب میں نے سنا کہ اچنتیہ کو فوراً کڈنی ٹرانسپلانٹیشن کی ضرورت ہے، تو میں نے اپنی ایک کڈنی عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا کرنے سے میں نہیں مروں گا، لیکن اچنتیہ کو ایک نئی زندگی ملے گی۔‘‘


ہسلو محمد نے اچنتیہ بسواس کے الگ مذہب سے تعلق رکھنے سے متعلق کہا کہ انسانی زندگی سب سے قیمتی ہے، اس کو بچانے سے مذہب خطرے میں نہیں پڑ سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمارا مذہب الگ ہو سکتا ہے، لیکن ہمارا بلڈ گروپ ایک ہی ہے۔ اس تعلق سے ہسلو محمد کی بیوی منورہ نے کہا کہ ان کے شوہر نے وہی کیا جو ایک انسان کو کرنا چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ دونوں کے ہی 5 اور 7 سال کے دو بیٹے ہیں اور دونوں کی فیملی بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہے۔ 28 سالہ اچنتیہ کو ڈائلیسس کے لیے ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اچنتیہ کا کہنا ہے کہ ’’ہلسو نے صرف میری جان بچانے کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کا فیصلہ کیا۔ میں اور میری فیملی ان کا ہمیشہ شکرگزار رہے گی۔ اگر وہ آگے نہیں آتے تو میری موت کے بعد میری فیملی برباد ہو جاتی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔