ہم اڈانی کے ہیں کون: ’مرکزی وزیر نے کس طرح اڈانی انٹرپرائزیز کے ایف پی او کی کشتی پار لگانے کی کوشش کی‘

’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز میں کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے وزیر اعظم سے آج پھر تین سوالات پوچھے ہیں، آج کے سوالوں کا تعلق اڈانی انٹرپرائزیز کے فالو آن پبلک آفر (ایف پی او) سے ہے۔

<div class="paragraphs"><p>جئے رام رمیش</p></div>

جئے رام رمیش

user

قومی آوازبیورو

کانگریس کے سینئر لیڈر جئے رام رمیش نے آج ایک بار پھر’ہم اڈانی کے ہیں کون‘ سیریز کے مودی حکومت سے تین سوال پوچھے ہیں۔ اس سیریز کے تحت 13ویں قسط کے سوالات پی ایم مودی اور ان کی حکومت کے سامنے رکھنے سے پہلے جئے رام رمیش نے جاری بیان میں لکھا ہے کہ ’’محترم وزیر اعظم مودی جی، جیسا کہ آپ سے وعدہ تھا، آج آپ کے لیے ایچ اے ایچ کے (ہم اڈانی کے ہیں کون) سیریز میں سوالوں کا تیرہواں سیٹ پیش ہے۔ آج کے سوالات اس بات سے متعلق ہیں کہ کیسے مرکزی کابینہ کے سینئر اراکین نے عوامی پیسے کا استعمال کر کے اور اپنے قریبی کاروباری متروں کی کرم کی اپیل کر کے اڈانی انٹرپرائزیز کے فالو آن پبلک آفر (ایف پی او) کی کشتی پار لگانے کی کوشش کی۔‘‘ اس کے بعد کانگریس لیڈر نے تین سوالات پیش کیے جو اس طرح ہیں:

سوال نمبر 1:

کیا یہ سچ ہے کہ طویل وقت سے کاروباری رشتہ رکھنے والے اور ہمیشہ سرخیوں میں بنے رہنے والے ایک مرکزی وزیر نے گوتم اڈانی کی طرف سے 6-5 مشہور کاروباریوں کو نجی طور پر فون کیا اور انھیں گوتم بھائی کو شرمندگی سے بچانے کے لیے ان کے ایف پی او میں اپنی نجی دولت کی سرمایہ کارنے کے لیے گزارش کی؟ کیا یہ موضوع جانچ کے لائق مفادات کے تصادم کا نہیں ہے؟ کیا اس مرکزی وزیر نے آپ کی ہدایت پر یہ کام کیا؟


سوال نمبر 2:

کیا اڈانی ایف پی او کو اُبارنے کے لیے جن کاروباریوں پر دباؤ ڈالا گیا تھا، انھیں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ یہ سب قواعد گوتم اڈانی کی ساکھ کو بچانے کے لیے ہے اور ایف پی او کو بعد میں رد کر دیا جائے گا اور سرمایہ کاروں سے چھپانا اور صرف کچھ چنندہ لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا ہندوستانی سیکورٹیز اصولوں کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا ایف پی او سرمایہ کاروں سے اس طرح دھوکہ کرنا اخلاقی ہے؟

سوال نمبر 3:

اڈانی انٹرپرائزیز ایف پی او کے بنیادی سرمایہ کاروں میں ایل آئی سی (299 کروڑ روپے کی بولی)، ہندوستانی اسٹیٹ بینک ملازمین پنشن فنڈ (99 کروڑ روپے کی بولی) اور ایس بی آئی لائف انشورنس کمپنی (125 کروڑ روپے کی بولی) شامل تھے۔ عوامی ملکیت والے ان اداروں نے اس بات کے باوجود ایف پی او میں حصہ لیا کہ ایشو پرائس کے مقابلے میں مارکیٹ پرائس کافی نیچے گر گیا تھا اور ایل آئی سی و ایس بی آئی دونوں کے پاس پہلے سے ہی اڈانی گروپ کی ایکویٹی کا ایک بڑا حصہ تھا۔ کیا ایل آئی سی اور ایس بی آئی کو کروڑوں ہندوستانیوں کی بچت کو ایک بار پھر سے اڈانی گروپ کو اُبارنے کے لیے سرمایہ کاری کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔