'ماہر شبلیات' ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی

ڈاکٹرالیاس اعظمی درجنوں کتابیں سپرد قرطاس کر چکے ہیں لیکن انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کی حیات اور ان کے قلمی،علمی اور مذہبی کارناموں پر جو کچھ لکھا ہے وہ واقعی ایک تاریخی کارنامہ ہے۔

ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی
ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی
user

جمال عباس فہمی

ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی ایک ایسا منفرد قلمکار ہے جو بیک وقت محقق بھی ہے، مضمون نگار بھی ہے، تبصرہ نگار بھی ہے، سوانح نگار بھی ہے، مترجم بھی ہے، مولف بھی ہے اور ایک قابل اور لائق استاد بھی۔ ڈاکٹر الیاس اعظمی کے ادبی قد کا اندازہ لگانے کے لئے یہ امر ہی کافی ہے کہ وہ واحد قلمکار ہیں جنہیں بر صٖغیر ہند و پاک ہی میں نہیں بلکہ اردو ادب کی دنیا میں 'ماہر شبلیات' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر الیاس اعظمی کی انفرادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ خود درجنوں کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں اور خود ان کے تعلق سے دو کتابیں ضابطہ تحریر میں لائی جا چکی ہیں، ان کی تصنیفانہ صلاحیتوں پر ایک کتاب تو عربی کے جید عالم پروفیسر ریاض الرحمان شروانی نے ہی تحریر کی ہے، ان کے تعلق سے دوسری کتاب بھی منفرد طرز کی ہے۔ انہوں نے شبلی کے تعلق سے جو کتابیں تحریر کیں ان پر مختلف قلمکاروں نے مختلف رسائل اور جرائد میں تبصرے تحریر کئے۔ ان تبصروں کو بھی ایک کتاب کی شکل دی جا چکی ہے۔ کون ہیں یہ ڈاکٹر الیاس اعظمی اور کیوں انہیں کہا جاتا ہے 'ماہر شبلیات' اس پر گفتگو کرنے سے پہلے آئیے الیاس اعظمی کے بارے میں مختصر طور سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

محمد الیاس نے 23 ستمبر 1966 کو ضلع اعظم گڑھ کے مہراج پور میں ایک دیںدار اور زمیںدار گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ خاندان کی روایت کے مطابق انہوں نے ابتدائی تعلیم علاقے کے مکتب میں حاصل کی۔ والد انہیں عالم دین بنانا چاہتے تھے مگر وہ کسی دوسرے ہی میدان کے شہسوار بننے والے تھے، محمد الیاس نے آگرہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور پوروانچل یونیورسٹی سے '‘دارالمصنفین کی تاریخی خدمات' کے موضوع پر مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ یہ مقالہ خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ سے شائع ہوا۔ اس طرح محمد الیاس ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی بن گئے۔ الیاس اعظمی ایک سرکاری اسکول سے بحیثیت استاد وابستہ ہیں۔ ملازمت کی مصروفیت کے باوجود الیاس اعظمی نے نہ کتب بینی سے غفلت برتی اور نہ تحریر و تالیف سے دامن بچایا۔


ڈاکٹرالیاس اعظمی درجنوں کتابیں سپرد قرطاس کر چکے ہیں لیکن انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کی حیات اور ان کے قلمی،علمی اور مذہبی کارناموں پر جو کچھ لکھا ہے وہ واقعی ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ ایک مکمل ادارے کا کام ہے جو تن تنہا الیاس اعظمی نے انجام دے دیا ہے، الیاس اعظمی کی شناخت 'ماہر شبلیات' کے طور پر ادب عالیہ کے سینے پر رقم ہے۔ علامہ شبلی کی شخصیت کی جانب الیاس اعظمی اس وقت کھنچے چلے گئے جب وہ پی ایچ ڈی کے لئے ’دارالمصنفین کی تاریخی خدمات' کے موضوع پر تحقیقی مقالہ تحریر کر رہے تھے۔ ’دارالمصنفین کی خدمات کی تحقیق کرتے کرتے الیاس اعظمی دارالمصنفین کے بانی علامہ شبلی نعمانی کی علمی اور مذہبی شخصیت کی تابناکی میں ایسا گم ہوئے کہ آج تک اس کے حصار سے نکل نہیں سکے ہیں۔ یایوں کہا جائے کہ علامہ کی شخصیت کی چکا چوندھ سے الیاس اعظمی کی آنکھیں خیرا ہو گئیں۔ علامہ شبلی کی شخصیت کی پرکشش روشنی الیاس اعظمی کے وجود میں اس درجہ رچ بس گئی ہے کہ ان کی آنکھیں علامہ شبلی کی زندگی کے ان پہلوؤں تک پہنچ گئی ہیں جو اب تک کسی قلمکار کی حد رسائی میں نہیں آسکے ہیں۔ ڈاکٹرالیاس اعظمی در حقیقت ایک شبلی شناس قلمکار ہیں۔ الیاس اعظمی کے لئے علامہ شبلی کی شخصیت علم و حکمت، شعر و ادب، مذہب و فلسفہ اور روحانی کیف و وجدان کا ایک ایسا بحر بے کنار ہے کہ وہ جب چاہتے ہیں اس بحر کی شناوری کرتے ہیں اور گہر ہائے آبدار اس کی تہ سے چن کر لے آتے ہیں۔ علامہ شبلی کی شخصیت کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو الیاس اعظمی کی تحقیقی نظر کی زد میں آئے بغیر رہ گیا ہو۔

'متعلقات شبلی'، 'کتابیات شبلی'، 'شبلی۔سخن وروں کی نظر میں'، 'مکتوبات شبلی'، 'آثار شبلی'، 'علامہ شبلی کے نام اہل علم کے خطوط'، 'شبلی شناسی کے سو سال'، 'شذرات شبلی'، 'اقبال اور دبستان شبلی'، 'شبلی اور جہان شبلی'، 'مراسلات شبلی'،'خطبات شبلی' 'نوادرات شبلی'،'شبلی، خود نوشتوں میں'، 'علامہ شبلی کی تعزیتی تحریریں'، 'نقوش شبلی'، 'کلام شبلی کے اشخاص و اعلام'، 'بیان شبلی جلد اول'، 'تصانیف شبلی کے تراجم'، 'علامہ شبلی کے فارسی خطوط ایک مطالعہ' ان کی وہ کتابیں ہیں جو علامہ شبلی پر تحقیقی کام انجام دینے والے نئی نسل کے اسکالروں کے لئے بہت مفید ثابت ہوںگی، الیاس اعظمی کی ایک اور کتاب 'شبلی۔ ایک تحقیقی مطالعہ' اشاعت کے لئے تیار ہے۔ اس طرح علامہ شبلی نعمانی کی حیات اور ان کی علمی اور مذہبی خدمات کے تعلق سے الیاس اعظمی کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد اکیس ہو جائے گی۔ شبلیات کے علاوہ ڈاکٹر الیاس اعظمی کا قلم دیگر موضوعات پر بھی قرطاس پر جلوہ نما ہوتا رہتا ہے۔ ڈاکٹرالیاس اعظمی نے سوانح اور تذکرے بھی تحریر کئے ہیں۔


'تذکرت القرا'، 'سید سلیمان ندوی بحیثیت مورخ'، 'شاہ معین الدین احمد ندوی حیات و خدمات، ''یگانہ روزگار۔ مولانا عبد السلام ندوی'، 'قرائے عظام اور ان کی علمی و دینی خدمات'،'عظمت کے نشاں' اور 'مطالعات و مشاہدات' جیسی کتابیں بھی الیاس اعظمی کے قلمی سرمایہ کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر الیاس اعظمی کی مقالہ نگاری کا جو سلسلہ پی ایچ ڈی کے لئے ' ‘دارالمصنفین کی تاریخی خدمات' پر تحریر کرنے سے شروع ہوا تھا وہ بھی جاری ہے۔ اسی مقالے کی بدولت انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی تھی۔ 'عکس و اثر' اور 'قد اور سائے' ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ 'اشاریہ ماہنامہ الرشاد اعظم گڑھ'، 'کتابیات مجیب' اور 'کتابیں' اول و دوم بھی ان کی تحریر کردہ ہیں۔

الیاس اعظمی کو تجوید و قرأت کے فن کی بھی بہت اچھی سمجھ ہے۔ 'اسہل التجوید' اور 'علم الترتیل' جیسی کتابیں اس کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے ممبئی کے اپنے سفر کے تجربات اور مشاہدات کو'ساحلوں کے شہر میں' کے عنوان سے ایک کتاب کی صورت میں محفوظ کر دیا ہے۔ الیاس اعظمی ترجمے کے کام میں بھی ہاتھ آزماتے رہتے ہیں۔ 'رحمت عالم' (ہندی ترجمہ) اس کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ 'ہندو کبھی نہ بنتا' (اردو ترجمہ) اس کے دو ایڈیشن مظر عام پر آچکے ہیں۔ تدوین و ترتیب بھی ڈاکٹر الیاس اعظمی کا ایک قلمی مشغلہ ہے۔ علامہ شبلی کی تصانیف 'اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر' اور 'موازنہ انیس و دبیر' کی انہوں نے تدوین کی ہے۔


'کاروان رفتگاں' کے عنوان سے مولانا مجیب اللہ ندوی کے دفیاتی مضامین، شاہ افضال اللہ قادری کی 'تاریخ اعظم گڑھ' مولانا مجیب اللہ ندوی کے اسفار سے متعلق 'اسفار مجیب' مولانا شاہ معین الدین ندوی کے دفیاتی مضامین ''متاع رفتگاں' کے عنوان سے اور 'کلیات نشور واحدی' (حصہ غزلیات) کو الیاس اعظمی نے ترتیب دیا ہے۔ ڈاکٹر الیاس اعظمی ادبی حلقوں میں ایک محبوب شخصیت ہیں۔ ان کے چاہنے والے اہل قلم انہیں خطوط لکھتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر الیاس نے اپنے مشاہیر مداحوں کے خطوط کو بھی ایک کتابی شکل میں پیش کر دیا ہے۔ اس کتاب کو عنوان دیا ہے۔ 'محبت نامے' ڈاکٹر الیاس اعظمی درجنوں کتابیں سپرد قرطاس کرچکے ہیں لیکن خود ان کے تعلق سے بھی دو کتابیں ان کے چاہنے والے قارئین کو تحفے میں ملی ہیں۔ پروفیسر ریاض الرحمان شروانی نے ڈاکٹر الیاس اعظمی پر کتاب لکھی ہے۔

'ڈاکٹر الیاس اعظمی بحیثیت مصنف' ریاض شروانی علامہ شبلی اور مولانا آزاد کے قریبی ساتھی مجیب الرحمان خان شروانی کے فرزند تھے۔ ان کا 95 برس کی عمر میں انتقال ہو چکا ہے۔پروفیسر ریاض الرحمان شروانی خود ایک نہایت قابل شخصیت تھے۔وہ عربی میں ایم اے تھے۔ اے ایم یو سے عربی میں پی ایچ ڈی کیا۔ اے ایم یو میں ہی عربی شعبے کے سربراہ بھی رہے۔ کشمیر اور قاہرہ یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ مولانا ابولکلام آزاد پر تو وہ اتھارٹی تھے۔ ایک طرح سے انہیں 'ماہر ابولکلامیات' کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ پروفیسر ریاض الرحمان شروانی نے خود ڈاکٹر الیاس اعظمی کی سولہ کتابوں پر تبصرے تحریر کئے ہیں۔


ڈاکٹر الیاس اعظمی کی کتابوں پر اتنی کثیر تعداد میں تبصرے شائع ہوچکے ہیں کہ اگر انہی کو یکجا کر دیا جائے تو خود ایک کتاب وجود میں آسکتی ہے۔ شبلی کے تعلق سے الیاس اعظمی کی پانچ کتابوں پر شائع تبصروں کو شائستہ ریاض نے کتابی شکل دے بھی دی ہے۔ اس کتاب کا عنوان ہے 'ڈاکٹر الیاس اعظمی بحیثیت شبلی شناس' خود ڈاکٹر الیاس اعظمی ایک تبصرہ نگار بھی ہیں۔ تین سو سے زیادہ کتابوں پر وہ تبصرے تحریر کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر الیاس اعظمی کی قلمی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا رہا ہے۔ الیاس اعظمی کی دو کتابوں کو اتر پردیش اردو اکیڈمی انعامات سے نواز چکی ہے۔ الیاس اعظمی 1994 سے دینی رسالہ 'الرشاد' کے مدیر اعزازی ہیں۔ 2008 سے الیاس اعظمی کو دارالمصنفین اعظم گڑھ نے اعزازی فیلو شپ سے نواز رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر الیاس اعظمی لاہور سے شائع ہونے والے مجلہ 'جہات الاسلام' کی بین الاقوای مجلس مشاورت کے رکن بھی ہیں۔


ڈاکٹر الیاس اعظمی علامہ شبلی کی شخصیت کے نئے نئے گوشے اور نئے نئے پہلو تلاش کر رہے ہیں اور ان کو تحریر کا لباس عطا کر رہے ہیں۔ ویسے تو علامہ شبلی کے سلسلے میں ان کے ہاتھوں تحریر کردہ ہر کتاب قیمتی اور قابل مطالعہ ہے لیکن 'بیان شبلی اول' قدرے مختلف نوعیت کی کتاب ہے۔ یہ کتاب مجموعی طور پر 11 مقالات اور مضامین پر مشتمل ہے اور ہر مقالہ یا مضمون علامہ کی ادبی، صحافتی، مذہبی اور سیاسی زندگی کے کسی نہ کسی گوشے کو اجاگر کرتا ہے۔ اس کا پہلا مضمون ہی میری نظر میں اہم ترین ہے اور وہ ہے تصوف پر علامہ کی وقیع تقریر اور اس تقریر کے بارے میں جزئیات۔ اگر یہ تقریرمن و عن منظر عام پر نہ آتی تو تصوف جیسے وسیع موضوع پر علامہ شبلی کے نظریات سے آگاہی نہیں ہوتی۔ اس کتاب کا ایک مضمون مصری مصنف جرجی زیدان کی گمراہ کن کتاب کی رد میں علامہ کی کتاب 'الانتقاد' سے متعلق ہے۔ جرجی زیدان کی گمران کن تحریر اور اس سے متعلق دیگر پہلو اور خط و کتابت بھی شامل کتاب ہے۔ جرجی زیدان کے عربوں اور اسلام سے متعلق جھوٹے پروپگنڈے سے علامہ شبلی کو کتنی تکلیف ہوئی تھی اس کا اندازہ بھی اس مضمون سے ہوتا ہے۔ کتاب میں علامہ شبلی کی شاعری، ان کے کلام پر تضمین سے متعلق بھی دلچسپ مضامین شامل ہیں۔ علامہ شبلی کے نو دریافت اور غیرمدون خطوط کی شمولیت بھی اس کتاب کا اہم حصہ ہے۔

ڈاکٹر الیاس اعظمی کو اگر بر صغیر ہند و پاک میں 'ماہر شبلیات' کہا جاتا ہے تو بے جا نہیں ہے کیونکہ وہ علامہ شبلی نعمانی کے حوالے سے 21کتابیں تحریر کرچکے ہیں۔ علامہ شبلی کے عشق کی مجسم تصویر ڈاکٹر الیاس کی صورت میں موجود ہے۔ علامہ شبلی کی حیات اور مجموعی خدمات کا کوئی پہلو دائرہ تحریر میں لائے بغیر ڈاکٹر الیاس نے چھوڑا نہیں ہے، شبلیات کا سلسلہ شروع بھی الیاس اعظمی نے ہی کیا تھا اور اس کو وسیع تر کرنے کی ذمہ داری بھی انہوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔