اتر پردیش میں ہندوتوا سیاست خطرے میں... ظفر آغا

نریندر مودی نے بطور ہندو ہردے سمراٹ مسلم مخالفت کے ساتھ ملک کے غریبوں میں ڈیولپمنٹ کے خواب کی مارکیٹنگ کی اور مرکز پر قبضہ کر کے پہلے نتیش سے ہاتھ ملا کر بہار اور پھر یوپی پر ہندوتوا کا قبضہ کرا دیا

Getty Images
Getty Images
user

ظفر آغا

حالانکہ چناؤ پانچ ریاستوں میں ہو رہے ہیں لیکن اتر پردیش خبروں میں چھایا ہوا ہے۔ ہونا بھی چاہیے۔ ملک کا سب سے اہم سیاسی صوبہ جہاں سے 80 ممبران پارلیمنٹ چن کر آتے ہیں، وہ تو خبروں کا مرکز بنے گا ہی۔ مگر اس بار اتر پردیش چناؤ کچھ زیادہ ہی دلچسپی کا مرکز بن گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سنہ 2014 سے اس بی جے پی کے قلعے میں بغاوت ہی نہیں بلکہ طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ مسئلہ اور سنجیدہ ہو گیا ہے اور وہ اس لیے کہ بغاوت خود بی جے پی کے اندر ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ یوگی حکومت کے تین وزراء سوامی پرساد موریہ، دارا سنگھ چوہان و دھرم سنگھ سینی اور ان کے حامی 10-8 اراکین اسمبلی بی جے پی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ خبر گرم ہے کہ حالات اور خراب ہونے والے ہیں۔ جلد ہی بی جے پی میں بھگدڑ مچ سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر چناؤ کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی میں بغاوت کیوں اٹھ کھڑی ہوئی! یہ ذرا پیچیدہ سوال ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے پچھلے تیس سالوں میں یوپی کی سیاست اور پھر سنہ 2014 سے اب تک چلنے والی ہندوتوا سیاست کو پہلے سمجھنا ہوگا۔ تو آئیے ذرا پٹ کر پیچھے تیس سالوں کی یوپی کی سیاست ک جائزہ لیں۔

سنہ 1989 میں لوک سبھا چناؤ اور یوپی اسمبلی چناؤ میں کانگریس کی شکست کے بعد یوپی میں ملائم سنگھ کی قیادت میں جنتا پارٹی کی سرکار بنی۔ جلد ہی مرکز میں اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ نے ملک میں منڈل سفارشات نافذ کر پسماندہ ذاتوں کو سرکاری نوکریوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں 27 فیصد ریزرویشن دے دیا۔ اس طرح ملک خصوصاً یوپی اور بہار میں منڈل سیاست کی بنیاد پڑ گئی۔ پہلی بار اتر پردیش اور بہار کا اقتدار اعلیٰ ذاتوں کے ہاتھوں سے نکل کر پسماندہ ذاتوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ یوپی میں یہ اقتدار تقریباً تین دہائیوں تک پسماندہ اور دلت ذاتوں کے ہاتھوں میں رہا۔ حد تو یہ ہے کہ سیاست میں اس تبدیلی سے ہندو سماج میں سماجی سطح پر بھی اعلیٰ ذاتوں اور غیر اعلیٰ ذاتوں کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی۔ یہ بات سیاسی، سماجی اور مذہبی تینوں اعتبار سے صدیوں پرانی اعلیٰ ذات پر مبنی ہندو نظام کے لیے انتہائی پریشان کن تھی۔ اب ہندو نظام کے سامنے یہ سوال تھا کہ وہ یوپی اور بہار میں کس طرح اعلیٰ ذات کی فوقیت برقرار رکھے اور منڈل سیاست کو کم از کم یوپی اور بہار کے آگے نہ بڑھنے دے۔


اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے قدیم اعلیٰ ذات نظام نے آر ایس ایس کی مدد لی ور سنگھ و بی جے پی کو منڈل سیاست کو چیلنج کرنے کے لیے آگے کر دیا۔ اس طرح ملک میں سنہ 1990 کی دہائی میں کمنڈل سیاست کا دور شروع ہوا۔ کمنڈل سیاست کیا تھی! اس سیاست کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان کو ہندو دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ منڈل کے نام پر ہندو سماج جس طرح اعلیٰ ذاتوں اور پسماندہ و دلتوں کے بیچ بٹ گیا ہے، اس کھائی کو کسی طرح مسلمان بطور ہندو دشمن کے نام پر پُر کیا جائے۔ اسی مقصد کے تحت بابری مسجد اور رام مندر قضیہ کھڑا ہوا۔ مسلمانوں نے مسجد تحفظ کی بات شروع کی۔ سنگھ اور بی جے پی نے بھگوان رام کی جائے پیدائش پر مندر بنانے کی قسم کھائی۔ مسلم قیادت اپنے موقف پر اٹل رہی۔ ادھر ہندو قیادت رام مندر تعمیر کا جاپ الاپتی رہی۔ نتیجے سے آپ واقف ہیں۔ آہستہ آہستہ مسلمان ہندو سماج میں ہندو دشمن کے روپ میں سما گیا۔ اور اس طرح سنہ 1990 سے اب تک بی جے پی ملک پر قبضہ کر بیٹھی۔ اور یہ سیاست سیاسی حلقوں میں کمنڈل یعنی اعلیٰ ذات مفاد کے طور پر جانی جانے لگی۔

سنگھ اور بی جے پی کی مسلم دشمن کمنڈل سیاست، جس کو ہندوتوا کا لیبل دیا گیا، اس سے ہندو نظام کو دو فائدے ہوئے۔ پہلا تو یہ کہ ہندوتوا کو مسلمانوں کی شکل میں ایک ہندو دشمن مل گیا جس کی ہر طرح سے گت منا کر ہندوؤں میں ذات کے نام پر پیدا ہونے والی کھائی کو روک دیا گیا۔ اس کا سیاسی فائدہ یہ ہوا کہ منڈل سیاست یوپی اور بہار کے باہر نہیں بڑھ سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منڈل سیاست یوپی اور بہار تک محدود ہوگئی اور پسماندہ یا دلت مرکزی اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکے۔ اس طرح مرکز پر اور دیگر بہت ساری ریاستوں میں اعلیٰ ذاتوں کا ڈنکا بجتا رہا۔ لیکن یوپی اور بہار میں پھر بھی ملائم اور لالو کی قیادت میں پسماندہ ذاتیں صوبائی سطح پر راج کرتی رہیں۔


ادھر سنہ 2002 میں گجرات میں مسلم نسل کشی کے بعد نریندر مودی ہندو ہردے سمراٹ کے روپ میں ابھرے۔ اب سنگھ کے زیر سایہ ہندو نظام کو یہ محسوس ہونے لگا کہ مودی کو بطور ہندو ہردے سمراٹ مارکیٹنگ کر پورے ملک اور ساتھ ہی یوپی-بہار کو بھی ہندوستان کو مسلم منافرت کے ذریعہ باقاعدہ ایک ہندو راشٹر بنایا جا سکتا ہے۔ اور ہندو راشٹر کا روپ بہت حد تک ایک منوادی راشٹر ہوتا ہے جس میں مسلمان کی تو کوئی جگہ ہو نہیں سکتی۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ منووادی ذاتی نظام پر مبنی پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کے اختیاروں کو بھی تقریباً کم سے کم کیا جائے اور ان کے مفاد کو اقتدار سے پرے کیا جائے۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خود ایک پسماندہ ذات کی شخصیت نریندر مودی کے ہاتھوں میں ہندوتوا کی لگام سنہ 2014 میں سونپی گئی۔

نریندر مودی نے بطور ہندو ہردے سمراٹ مسلم مخالفت و منافرت کے ساتھ ملک کے غریبوں میں ڈیولپمنٹ کے خواب کی شاندار مارکیٹنگ کر مرکز پر پہلے قبضہ کیا، پھر پہلے لالو کو بہار میں پچھاڑ کر نتیش کمار سے ہاتھ ملا کر وہاں اقتدار پر قبضہ کیا۔ سنہ 2017 میں اسی طرح مودی کی ہی قیادت میں اتر پردیش پر بھی ہندوتوا کا قبضہ ہو گیا اور صوبہ سے پسماندہ اور دلتوں کا اقتدار جاتا رہا۔

اتر پردیش میں سنگھ نے مودی کی مرضی کے برخلاف ایک ٹھاکر اور گورکھپور مٹھ کے مکھیا یوگی آدتیہ ناتھ کے ہاتھوں میں اقتدار سونپا۔ آدیتہ ناتھ نے اتر پردیش میں پانچ سال خالص ہندوتوا یعنی منووادی سیاست لاگو کی۔ ان پانچ سالوں میں پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کو ہی کنارے کر دیا گیا۔ ساتھ میں ان پر ہاتھرس اور لکھیم پور کھیری جیسے مظالم بھی ڈھائے گئے۔ چونکہ یوگی ایک کٹر ہندووادی اور بے رحم حاکم تھے اس لیے پسماندہ ذاتیں اور دلت خاموش رہے۔ لیکن چناؤ آتے آتے خود یوگی حکومت میں شامل پسماندہ ذاتوں کے وزیروں نے استعفیٰ دینا شروع کر دیا۔ یہ محض وزیروں کا استعفیٰ نہیں بلکہ ہندوتوا اور منووادی سیاست کے خلاف پسماندہ ذاتوں کی بغاوت ہے۔ اور اس بغاوت کے دور رس نتائج ہوں گے جن کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔


یوپی میں پسماندہ ذاتیں جس طرح بغاوت پر ہیں، اس کے دو اہم نتائج ہوں گے۔ اولاً پسماندہ ذاتیں مسلم مخالفت کے نام پر اعلیٰ ذاتوں کے ساتھ تو جا سکتی ہیں، لیکن اگر سنگھ و بی جے پی اقتدار میں ان کو حصہ نہیں دیتیں تو وہ پھر منڈل سیاست کی طرف لوٹ جائیں گے۔ اور یوپی میں یہی ہو رہ اہے۔ یہ ذاتیں اب کمنڈل یعنی آدتیہ ناتھ کو چھوڑ کر منڈل سیاست کے سربراہ اکھلیش یادو کی قیادت تسلیم کر رہی ہے۔ دوسرا اہم ڈیولپمنٹ یہ ہے کہ منڈل-کمنڈل کے اندرونی تضاد نے یہ طے کر دیا کہ ملک میں سنگھ کی خالص منووادی سیاست اب نہیں چل سکتی ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ اب اس سیاسی ماحول میں یوپی چناؤ میں کیا ہونے جا رہا ہے! اس کا مکمل جواب تو چناؤ کے بعد پتہ چلے گا، لیکن یوپی میں پھر سے سنہ 1993 صوبائی چناؤ جیسے حالات بن رہے ہیں۔ سنہ 1993 کے یوپی صوبائی چناؤ میں منڈل کے پرچم تلے پسماندہ ذاتیں، دلت اور مسلمان اکٹھا ہو گئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا تھا کہ سنہ 1992 میں بابری مسجد گروا کر مسلم منافرت کی لہر پیدا کرنے کے باوجود بی جے پی اتر پردیش کا چناؤ ہار گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ اب ایک بار پھر سے ہندوتوا مخالف طاقتیں بی جے پی کا نعم البدل ڈھونڈ رہی ہیں۔ صورت حال کچھ سنہ 1993 والی ہے۔ یعنی پسماندہ ذاتوں، دلتوں اور مسلمانوں اور ان کے ساتھ ساتھ لبرل ہندوؤں کا ایک اتحاد پیدا ہو رہا ہے جو ہندوتوا سیاست کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Jan 2022, 3:10 PM