کیا ہوا جب مجروح سلطان پوری گانے کی ایک سطر اُدھار مانگنے فیض احمد فیض کے پاس پہنچے

آج یعنی 13 فروری کو مشہور شاعر فیض احمد فیض کا یومِ پیدائش ہے، اس موقع پر آئیے مجروح سلطان پوری کے ساتھ جڑے اُن کے اُس واقعہ کو یاد کرتے ہیں جب مجروح ایک سطر اُدھار لینے پہنچ گئے تھے۔

فیض احمد فیضؔ
فیض احمد فیضؔ
user

قومی آوازبیورو

فیض احمد فیض کی شاعری کا کون دلدادہ نہیں۔ ان کے تمام کلام لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ لیکن چند سطریں جو ان کی شناخت بن گئیں، ان میں سے ایک تھی ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘۔ بڑی بات یہ ہے کہ یہ نظم فیض صاحب کی پہلی ہی کتاب میں شائع ہوئی تھی۔ 1943 کا وہ زمانہ تھا اور کتاب تھی ’نقش فریادی‘۔ اس نظم کی مقبولیت کی ایک خاص وجہ بھی تھی۔ اسے شمہور گلوکارہ نور جہاں نے گایا تھا۔ ظاہر ہے فیض کی قلم اور نور جہاں کی آواز نے اس نظم کی مقبولیت کے لیے ’ایک اور ایک گیارہ‘ کی طرح کام کیا تھا۔ اب آتے ہیں اس نظم کی اس ایک سطر پر جس سے مجروح سلطان پوری کی اس کہانی میں انٹری ہوتی ہے۔ یہ بڑا دلچسپ قصہ ہے۔

واقعہ 1969 کا ہے۔ مشہور و معروف ڈائریکٹر راج کھوسلا ایک فلم بنا رہے تھے ’چراغ‘۔ اس سے قبل وہ سی آئی ڈی، ایک مسافر ایک حسینہ، وہ کون تھی، میرا سایہ جیسی بڑی فلمیں بنا چکے تھے۔ ’چراغ‘ کے لیے انھوں نے بطور اداکار سنیل دَت اور آشا پاریکھ کو سائن کیا تھا۔ فلم کی شوٹنگ شروع ہو چکی تھی۔ ایک دن راج کھوسلا کسی سے ملنے گئے تھے۔ وہاں انھوں نے فیض احمد فیض کی وہی نظم سن لی جس کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے۔ ان کی زبان پر ایک مصرعہ (سطر) چڑھ گیا اور وہ بار بار اسی مصرعہ کو گنگنانے لگے۔ وہ مصرعہ تھا ’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘۔ راج کھوسلا کی فلم ’چراغ‘ کے لیے گانا لکھنے کا کام مجروح سلطان پوری کے ذمہ تھا۔ موسیقی مدن موہن تیار کر رہے تھے۔ یعنی اداکار سے لے کر گلوکار-موسیقار تک سب کے سب اپنے کام میں ماہر تھے۔ یہ سبھی اس دور کے بڑے نام تھے۔


پھر ہواں یوں کہ راج کھوسلا نے مجروح سلطان پوری کو فیض کی نظم سنائی اور کہا کہ اسی لائن پر ایک گانا فلم کے لیے لکھیں۔ مجروح سلطان پوری خود بہت بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ دوسرے شاعروں کی سطروں پر کام نہیں کرتے۔ ہاں، اس سطر کے ارد گرد کچھ لکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے بعد مجروح نے اس سطر کے آس پاس کچھ لکھا بھی، لیکن راج کھوسلا کو کچھ پسند ہی نہیں آیا۔ ان کے دماغ میں بس ایک ہی سطر گھومتی رہی ’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘۔ ویسے کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اس سطر یعنی مصرعہ کو سننے کے بعد راج کھوسلا کو اپنی محبوبہ کی آنکھیں یاد آ گئی تھیں۔ اسی وجہ سے ان کا دماغ اور کچھ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

دوسری طرف مجروح سلطان پوری کے ساتھ دقت یہ تھی کہ وہ عمر میں فیض سے تھوڑے چھوٹے ضرور تھے، لیکن ان کا اپنا نام بھی بڑا تھا۔ 1965 میں ہی انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا جا چکا تھا۔ وہ ایوارڈ انھیں فلم ’دوستی‘ کے گانا ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘ کے لیے ملا تھا۔ مجروح یہ نہیں چاہتے تھے کہ فلم انڈسٹری میں یہ کہا جائے کہ انھوں نے گانے کی لائن کسی اور شاعر کے کلام سے لے لی۔ بات پھنسی ہوئی تھی۔ اس کا توڑ نکالنا ضروری تھا۔ اس کے بعد کی کہانی مزید دلچسپ ہے۔


مجروح سلطان پوری کو سمجھ آ گیا کہ راج کھوسلا اب ماننے والے نہیں ہیں۔ راج کھوسلا کے ساتھ ان کے تعلقات ایسے تھے کہ انھیں منع بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کا راستہ یہ نکالا گیا کہ مجروح سلطان پوری نے فیض احمد فیض سے رابطہ کیا۔ انھیں پوری کہانی بتائی۔ ساتھ ہی یہ گزارش بھی کی کہ انھیں نظم کے ایک مصرعہ کا استعمال کرنے کی اجازت دے دیں۔ فیض صاحب دل کے بڑے آدمی تھے۔ انھوں نے بڑی آسانی سے مجروح سلطان پوری کو ایسا کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد مجروح نے وہ گانا لکھا جو ہندی فلموں کے مشہور نغموں میں شامل ہو گیا۔ گانا اس طرح ہے:

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

یہ اٹھے صبح چلے، یہ جھکے شام ٹھلے

میرا مرنا، میرا جینا، انہی پلکوں کے تلے

اس گانے کو محمد رفیع اور لتا منگیشکر نے اپنی آواز دی۔ گانے کو سنیل دَت اور آشا پاریکھ پر فلمایا گیا۔ یہ گانا فلم ’چراغ‘ کا سب سے مقبول گانا ثابت ہوا۔ قصہ تو یہ بھی ہے کہ اس گانے کے ریلیز کے بعد فیض احمد فیض نے مجروح سلطان پوری کو یہ پیغام بھجوایا کہ انھوں نے نظم کی ایک لائن کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے اور بہت ہی شاندار گانا لکھا ہے۔ آج کے دور میں جب اکثر فلم انڈسٹری میں ’کاپی رائٹ‘ کے ہنگامے سننے کو ملتے ہیں تب سمجھ آتا ہے کہ فیض احمد فیض یا مجروح سلطان پوری جیسے لوگ کتنی بڑی شخصیت تھے۔

(بشکریہ شیویندر کمار سنگھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔