زندگی کے مسائل کی طنز کے نشتر سے جراحی کرنے والا قلمکار تقدیس نقوی... جمال عباس فہمی

حقیقت یہ ہے کہ دین و مذہب کا طنزو مزاح سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے لیکن تقدس نقوی کی ذات میں یہ دونوں باہم متضاد پہلو یکجا ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ تنوع ہی انہیں ایک ماہر قلمکار بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تقدیس نقوی</p></div>

تقدیس نقوی

user

جمال عباس فہمی

طویل عرصہ تک استعمال نہ ہونے پر تلوار کی دھار کند ہو جاتی ہے لیکن جو افراد قلم کے دھنی ہوتے ہیں وہ کتنی ہی طویل غیر حاضری کے بعد قلم سمبھالیں تو ان کے قلم کی آب و تاب میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ زمانے کا سرد و گرم ان کی قلمی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ایسے ہی قلم کے دھنی ہیں تقدیس نقوی جنہوں نے چالیس برس کی طویل غیر حاضری کے بعد جب پھر سے قلم اٹھایا تو ان کی تحریر پہلے سے زیادہ آب و تاب سے بھری ہوئی نظر آئی۔ تقدیس نقوی افسانہ نگار بھی ہیں اور انشائیہ اور طنز و مزاح نگار بھی۔ وہ مذہبی اور دینی امور پر بھی اسی چابک دستی کے ساتھ لکھتے ہیں، جیسے فکشن نگاری میں جودت طبع کے جوہر دکھاتے ہیں۔ بینکنگ کے نہایت غیر ادبی ماحول سے چالیس سالہ وابستگی بھی ان کے ادبی اور قلمی جوہر کو متاثر نہیں کرسکی۔ کون ہیں یہ تقدیس نقوی؟ ان کے بارے میں تفصیل سے لکھنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر، ان کے تعلیمی سفر اور نگارشاتی عمل کے بارے میں جان لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

 تقدیس نقوی کا مکمل نام تقدیس الحسن نقوی ہے۔ وہ 5 مارچ 1954 میں امروہہ کے ایک علمی، ادبی اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا بر صغیر کے ایک معروف عالم دین مولانا ظفر حسن نقوی تھے۔ وہ عربی اور فارسی کے جید عالم تھے۔ مولانا ظفر حسن نے مختلف دینی اور فقہی موضوعات پر 300 سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں۔ مولانا ظفر حسن نے تفسیر القران 5 جلدوں میں، سیرت رسول اللہؐ 2 جلدوں میں اورسیرت مولا علیؑ 2 جلدوں میں تصنیف کی۔ مولانا ظفر حسن نے اصول کافی کا ترجمہ الشافی کے نام سے 5 جلدوں میں کیا۔ ان کی کتاب 'تحفتہ الابرار'' کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندستان اور پاکستان میں شیعوں کے ہر گھر میں اس کی موجودگی لازمی تصور کی جاتی ہے۔ تقدیس نقوی کے والد مولانا تہذیب الحسن بھی عالم اور ذاکر تھے۔ تقدیس نقوی کی ابتدائی تعلیم امروہہ میں ہوئی۔ انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی کام اور ایم کام کیا۔ انہوں نے اے ایم یو کی فیکلٹی آف کامرس میں بحیثیت لیکچرر خدمات انجام دیں۔ لیکچرر کے طور پر انہوں نے عراق میں بھی تدریسی خدمات نجام دیں۔عراق سے وہ دوبئی منتقل ہو گئے۔ تدریسی سلسلہ اس وقت منقطع ہوا جب وہ باقاعدہ ایک بینک سے وابستہ ہوگئے۔


ان کی افسانہ نگاری کا آغاز 1972 میں اے ایم یو میں طالب علمی کے زمانے میں ہی ہو گیا تھا۔ مختلف اخبار و رسائل میں ان کے افسانے شائع بھی ہوئے، لیکن کیریئر بنانے کی تگ و دو میں افسانہ نگاری کہیں پیچھے چھوٹ گئی۔ بینکنگ کی نہایت غیر ادبی دنیا میں ترقی کی منزلیں طے کرتے کرتے تقدیس نقوی 'یونائٹیڈ نیشنس بینک' کے وائس پریسیڈینٹ کے عہدے تک پہنچے اور وہ وقت بھی آیا کہ جب اس غیر ادبی ماحول سے رہائی ملی۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے دینی اور مذہبی کتابوں کی تصنیف شروع کی۔ اس سے ان کا مقصد اپنے خاندان کی دینی خدمت کی روایت کو آگے بڑھانا تھا۔

انہوں نے قرآن سے متعلق معلومات پر مبنی سوال و جواب کو دو حصوں میں ترتیب دیا۔ چہاردہ معصومین کی زندگیوں سے متعلق مضامین تحریر کئے اور ان کو کتابی صورت میں شائع کیا۔ انہوں نے نئی نسل کے غیر اردو داں طبقے کو دینی اور مذہبی معلومات سے آراستہ کرنے کے لئے انگریزی میں بھی قرآنی معلومات اور آئمہ اطہار کی زندگی پر کتابیں تحریر کیں۔ ان کی انگریزی کی ان کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رومن انگریزی میں ہیں یعنی اظہار مطلب کی زبان اردو ہے لیکن انہیں انگریزی حروف میں لکھا گیا ہے۔ ایسا کرنے کے پیچھے ان کا مقصد اردو لب و لہجہ کی حفاظت کرتے ہوئے اردو سے نا بلد طبقے تک دینی اور قرآنی معلومات پہنچانا ہے۔ دینی اور مذہبی نوعیت کی کتابوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے مزاح نگاری کے میدان میں بھی مشق قلم شروع کی۔ طنز و مزاح نگاری کرنے کی وجہ ان کے خیال میں یہ ہے کہ ''زندگی کے مسائل پر طنز کے نشتر سے جراحی کرنے کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے، جس کے بعد مزاح کے مرہم کا استعمال بھی مفید رہتا ہے۔'' ان کے تحریر کردہ طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کا ایک مجموعہ 'خراشیں' کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کا یہ مجموعہ 32 مضامین پر مشتمل ہے۔ مذہبیات پر لکھتے لکھتے ان کے اندر چھپا بیٹھا انشا پرداز کب نمودار ہونے کو مچلنے لگا انہیں پتہ بھی نہیں چلا اور دیکھتے دیکھتے مختلف سیاسی، سماجی اور ادبی موضوعات پر ان کا قلم قرطاس پر طنزیہ اور مزاحیہ جواہر پارے بکھیرنے لگا۔


تقدیس نقوی کے مضامین لہجہ کی چاشنی اور زبان کی شگفتگی سے لبریز ہیں، انہوں نے بظاہر بڑے معمولی نظر آنے والے موضوعات پر لکھ کر انہیں اہم بنا دیا۔ تقدیس نقوی کی قلمی نگارشات کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ چالیس برس تک غیر ادبی شعبہ سے منسلک رہنے کے بعد جب انہوں نے پھر سے قلم اٹھایا ہے تو اس طرح اٹھایا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کا قلم پیرانہ سالی کا شکار رہا ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ مضامین کی طرح ان کے مضامین کے عنوانات بھی بہت دلچسپ ہوتے ہیں۔ مثلاً ''امتحان کے جوتے''، ''ہم سب ٹریفک میں ہیں اور خیریت سے ہیں''،' 'سوشل میڈیا کی خود ساختہ عدالتیں''، ' 'آن لائن کاہلی کیئر سروس''، ''کوڑا جمال شاہی''، ''کاؤنٹر''، ''جشن بھوک'' اور 'مرثیہ قلم' وغیرہ۔ عنوان پڑھ کر ہی قاری کا بے اختیار مضمون پڑھنے کو دل چاہنے لگتا ہے۔ معروف اردو دانشور اور ناقد پروفیسر منظر عباس نقوی کا تقدیس نقوی کی مزاح نگاری اور موضوعات کے انتخاب کے سلسلے میں کہنا ہے کہ 'ان کی توجہ عمومی سماجی مسائل پر مرکوز رہی ہے۔ اس طرح ایک ہوش مند قاری ادبی تلذذ کے ساتھ ساتھ اس پیغام سے بھی مستفید ہوتا رہتا ہے جو طنز و تعریض کے پردوں میں پوشیدہ ہے۔''

ان کے انداز تحریر کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجئے۔ ڈجیٹل زمانے میں قلم کی نا قدری کا قصہ انہوں نے 'مرثیہ قلم‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں کچھ اس طرح کیا۔

'' یہ بات بھی قلم کی باقی شدہ عظمت کے لئے کافی ہے کہ آج بھی دو حکومتوں یا بین الاقوامی اداروں کے درمیان ہونے والے اہم ترین معاہدے کمپیوٹر کے ذریعے تیار کئے جانے کے باوجود قلم سے کئے گئے دستخطوں کے بغیر معتبر اور قابل قبول نہیں سمجھے جاتے۔ قلم نے حکومتی حلقوں میں بھی اپنی دھاک بٹھائی اور حکومتی وزارتوں کو قلم کی نسبت سے وزارت کے قلمدان کی شناخت ملی۔ ہر وزیر چاہے بے تعلیم ہو یا زیر تعلیم صاحب قلمدان کہلاتا ہے۔ قلم کی زبان کی آبدار تراش اور وضع نے گلستانوں اور ثمر گاہوں میں بھی خوب گل کھلائے اور اس کے توسط سے پھولوں اور پھلوں کی قلم لگا کر ان کے رنگ و بو اور حسن میں چار چاند لگا دیئے۔ جس کے باعث قلمی پھلوں نے تخمیوں کی مٹی خراب کر رکھی ہے اور انہیں کہیں منہہ دکھانے کے قابل نہ رکھا۔''


''امتحان کے جوتے'' عنوان کے مزاحیہ اور طنزیہ مضمون میں تقدیس نقوی کی پہلودار تحریر بے اختیار مسکرانے پر مجبور کردیتی ہے۔

''یہ دنیا جوتوں کی کتنی بھی ناقدری کرے مگر ان کی گوناگوں افادیت اور انسانی زندگی میں اہمیت سے آج بھی کوئی ان کار نہیں کرسکتا۔ اب تک کی گئی تحقیق کے مطابق جوتوں کے تمام مروجہ استعمال بشمول دوران امتحان اعانت نقل بے انتہا فائدہ مند اور نتیجہ خیز مانے جاتے رہے ہیں۔ پیروں میں پہننے کے روایتی اور گھسے پٹے استعمال کے علاوہ بھی جوتوں کے بہت سے استعمال انسانی تہذیب کے تمدنی ارتقا میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے بر وقت اور برجستہ استعمال کے سبب لوگوں کو بڑے بڑے جھگڑوں اور فسادوں میں روایتی اسلحہ کے تخریبی استعمال سے گریز کرنے پر مجبور ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ جب حالت اضطراری میں یہ ایک بار ایک دوسرے پر چل پڑتے ہیں تو کسی کو اسلحہ استعمال کرنے کی نہ تو مہلت ملتی ہے اور نہ ہی موقع۔ ایسی صورت حال کے چشم دید مشاہدین بتاتے ہیں کہ اگر کسی فریق نے اپنے دونوں ہاتھوں کو فضا میں چلتے ہوئے جوتوں سے مدافعت کرنے کے علاوہ استعمال کی کوشش کی تو دوسرے فریق کی کوششیں ضرور کامیاب ہو جاتی ہیں، شادی بیاہ کی بڑی سے بڑی اور عقیقہ مسیت کی چھوٹی سے چھوٹی تقریب سے لیکر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے ایوانوں تک ان جوتوں کے ضرورت اور بے ضرورت ایک دوسرے پر چل جانے کے نتیجے میں لوگوں کو سرخ رو ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔''

تقدیس نقوی متنوع تخلیقی صلاحیتوں کے مالک قلم کار ہیں، افسانہ نگاری سے قلمی جوہر دکھانے کا سلسلہ شروع کرنے کے بعد انہوں نے دینی اور مذہبی مضامین لکھے۔ اس کے ساتھ ساتھ طنزو مزاح پر بھی تحریر کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین و مذہب کا طنزو مزاح سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے لیکن تقدس نقوی کی ذات میں یہ دونوں باہم متضاد پہلو یکجا ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ تنوع ہی انہیں ایک ماہر قلمکار بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔