رائے پور سے کانگریس ایک بار پھر جدوجہد کے لیے تیار!... ظفر آغا

اچھی بات یہ ہے کہ اس بات کا احساس اب کانگریس اعلیٰ کمان کو بخوبی ہے۔ کانگریس قیادت سمجھ رہی ہے کہ اب محض چناؤ کے وقتوں میں الیکشن ریلیوں سے چناؤ نہیں جیتے جا سکتے

<div class="paragraphs"><p>کانگریس کا رائے پور اجلاس / قومی آواز</p></div>

کانگریس کا رائے پور اجلاس / قومی آواز

user

ظفر آغا

ملک کو ایک بار پھر کانگریس پارٹی کی اور کانگریس کو پھر سے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مغلوں کے بعد سے جب جب اس ملک پر نازک وقت آن پڑا، تب تب کانگریس پارٹی نے قربانیاں دیں اور ملک کی مشکل حل کی۔ جنگ آزادی اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ گاندھی جی، جواہر لال نہرو، مولانا آزاد، سردار پٹیل اور سبھاش چندر بوس جیسے لیڈروں کی قیادت میں لاکھوں کانگریسی جیل گئے اور ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ آزادی کے فوراً بعد ملک پر فرقہ پرستی کا سیلاب ٹوٹ پڑا۔ بٹوارے کی سیاست نے ملک کو فرقہ پرستی کے جہنم میں جھونک دیا۔ گاندھی جی نے اپنی زندگی کی قربانی دے کر اور جواہر لال نے سارے ملک میں عوام کو فرقہ پرستی کے خطرات سے آگاہ کروا کر پھر ملک کو بچا لیا۔ ایسے ہی وہ چین کے خلاف یا پاکستان کے خلاف جنگوں کا موقع رہا ہو یا کو کوئی اور ہر موقع پر کانگریس پارٹی نے ہی ملک کو قیادت بخشی اور مسائل حل کیے۔ ایک بار پھر ہندوستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک میں نفرت کی سیاست کا بازار گرم ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ ملک کا بنیادی سیکولر کردار ہی بدل کر ملک کو ہندو راشٹر کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل ہریانہ میں گئو اسمگلنگ کے نام پر جس طرح دو مسلم نوجوانوں کو مارا گیا وہ اس فرقہ وارانہ سیاست کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اب تو حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ ملک کے آئین کو خطرہ ہے۔ حالات یہ ہیں کہ ملک کے جمہوری نظام پر سیاہ بادل کے سائے نظر آ رہے ہیں۔

ایسے نازک حالات میں کانگریس پارٹی ان دنوں اپنا اہم پارٹی اجلاس کر رہی ہے۔ جیسی کہ خبریں آ رہی ہیں، رائے پور میں ملک کی سب سے پرانی اور تاریخ ساز پارٹی ملک پر پڑے برے وقتوں کا سامنا کرنے کو کمر کس رہی ہے۔ ایک بار پھر ملک کو کانگریس پارٹی کی ہی ضرورت ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کانگریس قیادت کو اپنی اس تاریخی ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ اس وقت راہل گاندھی ملک کے وہ واحد لیڈر ہیں جو بے خوف و خطر آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف ببانگ دہل سرگرم ہیں۔ اپنے کو سیکولر کہنے والی دوسری تمام پارٹیاں اور لیڈران اپنی کسی نہ کسی کمزوری کے سبب ای ڈی سے خائف ہیں اور مصلحتاً بی جے پی سے کھلی لڑائی لڑنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں محض کانگریس ہی ہے جس کو ملک گیر سطح پر بی جے پی کے خلاف جنگ کی کمان سنبھالنی ہوگی۔


لیکن کانگریس پارٹی کو بی جے پی سے لڑائی کے لیے اپنے کو پھر سے اپنے اس دور میں واپس جانا پڑے گا جس دور میں اس نے بڑی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس بات سے خود اب کانگریس بھی انکار نہیں کر رہی ہے کہ جنگ آزادی کے وقت کی کانگریس، یا جواہر لال نہرو کے دور کی کانگریس اور آج کے دور کی کانگریس کے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پرانی کانگریس مخالفت یعنی دن رات جدوجہد کی سیاست کرتی تھی۔ آج کی کانگریس اقتدار کی سیاست کرتی ہے۔ تقریباً پچاس سال سے اقتدار سے جڑی کانگریس جدوجہد بھول گئی۔ اس کی قیادت سے لے کر اس کے پارٹی ورکر تک سب ایئرکنڈیشن گاڑیوں اور کمروں کے عادی ہو گئے۔ چنانچہ بی جے پی سے لڑنے کے لیے پوری پارٹی کو پھر سے جدوجہد کے دور میں واپس جانا ہوگا۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس بات کا احساس اب کانگریس اعلیٰ کمان کو بخوبی ہے۔ کانگریس قیادت سمجھ رہی ہے کہ اب محض چناؤ کے وقتوں میں الیکشن ریلیوں سے چناؤ نہیں جیتے جا سکتے۔ پارٹی کی اس ضرورت اور پارٹی کو پھر سے دوبارہ عوام سے جوڑنے کے لیے قربانیوں اور سخت محنت کی ضرورت ہے۔ راہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک تین ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر یوں ہی نہیں کیا، اس پیدل بھارت جوڑو یاترا کے کئی مقاصد تھے۔ ایک تو پورے ملک کو یہ احساس دلانا کہ دیکھو، جاگو، تم نفرت کی سیاست کے طلسم میں پھنستے جا رہے ہو۔ پھر ملک کو محبت کا پیغام دے کر ملک کے پرانے مذہبی بھائی چارے کا پیغام دینا اور ملک کے سامنے نفرت کے بالمقابل آپسی محبت کا سیاسی بیانیہ پیش کرنا۔ اسی کے ساتھ راہل کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ خود ہزاروں میل پیدل چل کر اپنی پارٹی کو اوپر سے نیچے تک جھنجھوڑ دیا جائے۔ ان کو اس بات کے لیے تیار کر دیا جائے کہ وہ اب ایک بار پھر سے جدوجہد کی سیاست کے لیے سڑکوں کا راستہ اختیار کریں۔


رائے پور کانگریس اجلاس میں اسی مقصد سے کانگریس پارٹی نے ہر سطح پر پندرہ ہزار پارٹی سے جڑے افراد کو اکٹھا کیا ہے۔ رائے پور اجلاس ہر سطح پر پارٹی کو اس کام کے لیے تیار کر رہی ہے۔ وہاں اسی مقصد سے آنے والے دنوں میں پارٹی کی سیاسی لائن طے ہو رہی ہے تاکہ پارٹی اراکین عوام کو بی جے پی کی نفرت کی سیاست کے لیے جگا سکیں۔ پھر رائے پور سے نکل کر پارٹی نئی سیاسی لائن کے ساتھ بی جے پی کے خلاف اپوزیشن اتحاد کا کام کرنے میں جڑ جائے۔ رائے پور کانگریس کے لیے ایک نیا مشن ہے۔ امید ہے کہ رائے پور سے نکل کر کانگریس پارٹی اپنی حریف بی جے پی کے خلاف جو طبل جنگ بجائے گی اس کی گونج میں سنگھ کی نفرت کی سیاست تباہ و برباد ہو جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Feb 2023, 10:40 AM