جوہر سرسوی، جیتے جی شایان شان مرتبے سے محروم رہے... جمال عباس فہمی

جوہر سرسوی قصیدہ، غزل، قطعہ، رباعی اور نظم گوئی کے میدانوں میں آپ اپنا جواب تھے لیکن جیتے جی اس مرتبے سے محروم رہے جس کے وہ مستحق تھے۔

<div class="paragraphs"><p>جوہر سرسوی</p></div>

جوہر سرسوی

user

جمال عباس فہمی

ریاست اتر پردیش کی بستی سرسی ہمیشہ ہی علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے۔ یہ بستی جید علما، دانشوروں اور استاد شعرا کا مسکن رہنے کے باوجود اردو ادب کی دنیا کے لئے 'بہشت گم گشتہ' ہی رہی ہے۔ اس بستی کے قلمکاروں کو اردو ادب کے ناقدین نے کبھی قابل اعتنا نہیں گردانا۔ جوہر سرسوی بھی ایک ایسے ہی قادر الکلام شاعر تھے جن کی پذیرائی اردو ادب کے نقادوں نے نہیں کی۔ جوہر سرسوی قصیدہ، غزل، قطعہ، رباعی اور نظم گوئی کے میدانوں میں آپ اپنا جواب تھے لیکن جیتے جی اس مرتبے سے محروم رہے، جس کے وہ مستحق تھے۔ جوہر سرسوی علامہ نجم آفندی، مہدی نظمی اور ماہر لکھنوی جیسے شعرا کے ہم عصر تھے لیکن اس مقبولیت اور شہرت سے محروم تھے جس کے وہ حقدار تھے۔

 جوہر سرسوی کی شاعرانہ عظمت پر کچھ بھی قلم بند کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور ان کے تعلیمی اور شعری سفر کا سرسری طور سے جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جوہر سرسوی کا مکمل نام سید علی ہادی تھا۔ جوہر سرسوی کے زیر تخلص مشق سخن کرتے تھے۔ جوہر سرسوی 1918 میں اس دنیا میں آئے۔ جوہر سرسوی کے والد سید محمد ہادی بھی شاعر تھے اور قائد کے تخلص سے طبع آزمائی کرتے تھے، وہ استاد شاعر تھے۔ مرثیہ نگاری اور قصیدہ گوئی میں طاق تھے۔ عاشور کاظمی کی مرثیہ نگاری پر  کتاب ''اردو مرثیہ کا سفر'' میں سید محمد ہادی قائد کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔


جوہر سرسوی کے ادبی ذوق کو صیقل کرنے کے لئے ان کے گھر کا ادبی ماحول ہی کافی تھا۔ مقامی اسکول سے آٹھویں تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جوہر سرسوی نے اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے میرٹھ کے منصبیہ عربی کالج کا رخ کیا۔ وہاں سے ممتاز الا فاضل کی سند حاصل کی۔ اردو کے ساتھ ساتھ انہیں فارسی زبان پر بھی قدرت حاصل تھی۔ کم عمری سے ہی مشق سخن کرنے لگے تھے۔ ابتدا میں اصلاح کے لئے اپنا کلام والد کو ہی دکھایا کرتے تھے۔ بیٹے کے ذوق اور لگن کو دیکھتے ہوئے انہوں نے انہیں فیلسوف الشعرا سید محمد نقوی سید سرسوی کے سپرد کر دیا۔ سید سرسوی عزیز لکھنوی کے شاگرد تھے۔

جوہر سرسوی زمیںدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن زمیںداری کے خاتمے نے کسمپرسی کی دہلیز پر لا کر کھڑا کردیا تھا۔ فکر معاش نے انہیں سرسی ٹاؤن ایریا کی معمولی ملازمت کرنے پر مجبور کر دیا۔ آمدنی زیادہ نہیں تھی۔ اس دور میں مشاعروں اور مذہبی محفلوں سے اتنا نذرانہ حاصل نہیں ہوتا تھا جتنا آج کے شعرا حاصل کر لیتے ہیں۔ اس دور میں شاعری پیشے کے طور پر ذریعہ معاش بھی نہیں تھی اور پھر ان کے مزاج میں بھی خود داری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ جوہر مالی طور پر بھلے ہی قلاش تھے ذہنی اور فکری اعتبار سے نہیں۔ اس لئے کسمپرسی اور معاشی طور سے ہمیشہ نا آسودہ رہے۔


 انہیں دو ایسے حادثات سے گزرنا پڑا جن سے وہ اندر سے بری طرح ٹوٹ گئے تھے۔ وہ اپنے والد کے سایہ شفقت سے بہت جلدی محروم ہو گئے تھے جس کا انہیں گہرا صدمہ تھا۔ دوسرا جذباتی حادثہ اس وقت گزرا جب ان کے بڑے فرزند کی نا گہانی موت ہوگئی۔ وہ تین معصوم بچوں اور بیوی کا بوجھ ان کے کمزور کندھوں پر ڈال کر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ بیٹے کے غم سے وہ جیتے جی ابر نہیں سکے۔ معاشی کمزوری اور اپنے چہیتوں سے بچھڑنے کا رنج و الم ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا تھا۔ یہی درد و الم ان کی شاعری میں جھلکتا ہے۔ لیکن وہ نا تو قنوطیت کا شکار ہوئے اور نہ ہی زندگی سے مایوس ہوئے۔ انہوں نے اپنی فکر کو ہمیشہ مثبت رکھا۔ یہی مثبت سوچ ان کی شاعری کا خاص عنصر ہے۔ وہ منفی میں مثبت کے پہلو تلاش کر لیا کرتے ہیں۔

 جوہر متاع ہوش و خرد لٹ گئی تو کیا

 کیا کم ہے یہ کہ دولت غم لازوال ہے

....

غموں سے خال و خط عشق آب پاتے ہیں

یہ وہ دیا ہے جسے حادثے جلاتے ہیں

....

آشیاں کا ذکر کیا جل جائے گا بن جائے گا

چار تنکوں نے مگر کیسا اجالا کر دیا

.....

کوئی راہی ہو کانٹے بڑھ کے دامن تھام لیتے ہیں

کبھی یہ جرت اخلاق پھولوں میں نہیں ہوتی

....

کتنی ہم پھونک چکے بستیاں ارمانوں کی

تذکرہ ہے تو فقط طور کے جل جانے کا

....

میری تصویر میں رقصاں ہیں ہزاروں جلوے

اس طرف دیکھئے آئینے میں کیا رکھا ہے


جوہر سرسوی بنیادی اور فطری طور پر غزل کے ہی شاعر ہیں۔ جوہر کی شاعری عروض کے لحاظ سے نہایت پختہ، خیال آفرینی کے اعتبار سے دلنشیں، زبان و بیان کے اعتبار سے سلیس اور شگفتہ، الفاظ کی نشست و برخاست کے لحاظ سے برجستگی لئے ہوئے ہے۔ وہ حقیقی معنیٰ میں سہل ممتنع کے شاعر ہیں۔ زبان کی شیرینی اور لہجہ کی شائستگی ان کے ہر شعر میں رچی بسی ہوئی ہے۔

اجالے کر دیئے ہر ذہن کے تاریک گوشے میں

بڑی قیمت بڑھا دی بجلیوں نے آشیانے کی

.....

سوز فرقت سے اشک بہہ نکلے

پانی لے لے کے آگ آئی ہے

....

تیرے حدود حسن کی وسعت کے ماسوا

 دیکھے اگر تو آگ لگا دوں نظر کو میں

.....

جوش وحشت تری اللہ کرے عمر دراز

اب تو دامن بھی گریباں نظر آتا ہے مجھے

جوہر سرسوی کی شاعری میں موت و حیات کا فلسفہ بھی ہے۔ اپنوں کے بے گانے پن کا شکوہ بھی، منہدم ہوتی ہوئی اقدار کا ماتم بھی ہے، اخلاقیات کا درس بھی ہے۔

کریں وہ پرسش احوال جوہر

عنایت ہے نوازش ہے کرم ہے

....

یہ سوچ کر تری محفل سے اٹھ گیا جوہر

 خوشی سے ڈوب گئی نبض غم تو کیا ہوگا

....

مری نگاہ کی تصویر کھینچ لے صیاد

 بھری بہار میں گلشن سے جا رہا ہوں میں

.....

اٹھا کے رکھتا ہوں یوں بال و قرینے سے

قفس میں جیسے نشیمن بنا رہا ہوں میں

....

عشق نے حسن کی تسکین تمنا کے لئے

بارہا سر تہ شمشیر جفا رکھا ہے


یہ ان کی معاشی کمزوری ہی تھی جس کے سبب ان کی زندگی میں ان کا کلام کتابی شکل میں شائع نہیں ہوسکا۔ اس دور کے اخبارات اور رسائل میں تو ان کا کلام شائع ہوتا رہتا تھا۔ بھلا ہو ادیبہ، محققہ اور مصنفہ کشور جہاں زیدی کا جنہوں نے سرسی کی خاک چھانی اور ادب کے جواہر پاروں کو تلاش کیا اور ان کے کلام سے دنیائے ادب کو روشناس کرایا۔ کشور جہاں زیدی نے جوہر سرسوی کی غزلوں کو 'آئینہ جوہر' اور ان کے قصائد کو 'افکار جوہر' کے عنوان سے شائع کیا۔ لیکن جوہر سرسوی کا بہت سا ایسا کلام ہے جو اب تک ادب کے شائقین کی نظروں سے اوجھل ہے۔

جوہر سرسوی غزل کے ساتھ ساتھ قصیدے بھی بہت معیاری کہتے تھے۔ ان کے قصائد مذہبی نوعیت کے ہیں لیکن ان کے اوپر بھی غزل کا رنگ غالب ہے۔ جوہر سرسوی قصائد تمام شعری تر لوازمات کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔ رسول اکرم کی ولادت کی مناسبت سے ان کے نظم کردہ قصیدے کے یہ اشعار ان کی قادر الکلامی پر دلالت کرتے ہیں۔

 فکر انساں نے کیا غسل وہ ابلا چشمہ

آج تخریب نے تعمیر کا پہلو بدلا

 خود بخود ہو گیا ہر راستہ شر کا مسدود

کارواں خیر سے آکر سر منزل اترا

بغض و نفرت کی جگہ صدق و صفا نے چھینی

ظلمت جہل میں روشن ہوا حکمت کا دیا

....

 مولا علیؑ کی شان میں قصیدہ کے یہ اشعار ان کی زود گوئی کا ثبوت ہیں۔

 وہ ا ٓرہے ہیں بٹھاؤں سکون دل کو کہاں

 نظر کے سامنے ٹکرا رہے ہیں کون و مکاں

عجیب حسن میں اور عشق میں ہے ربط نہاں

وہاں چراغ جلیں اور روشنی ہو یہاں

خوشا نصیب بدلنے کو ہے نظام حیات

صنم کدے سے اٹھے گی ابھی صدائے اذاں


جوہر سرسوی نے سلام، نوحے، قطعات اور رباعیات بھی اسی قادرالکلام کے ساتھ نظم کیں جس طرح انہوں نےغزل اور قصیدہ میں اپنی جودت طبع کے جوہر دکھائے ہیں۔

چلا ہے جھولے سے بے شیر مسکراتا ہوا

چراغ خانہ کعبہ کی لو بڑھاتا ہوا

عجیب شان سے شہ کا حبیب آتا ہے

 قضا کی سمت نظر کرکے مسکراتا ہوا

 چراغ جرأت بے شیر کو بجھا نہ سکا

 کماں سے تیر جو نکلا تھا سنسناتا ہوا

....

گزر رہا ہے وہ مقتل سے کاروان حسین

گلے کٹاتا ہوا اور حیات پاتا ہوا

....

زمیں رن کی لرزتی تھی ادھر کثرت پہ لشکر کی

ادھر اصغر سے پوری ہو گئی گنتی بہتر کی

....

کسی صورت نہ جب ممکن ہوئی تکمیل محضر کی

تتمہ پر لگا دی مہر شہ نے خون اصغر کی

شعرو سخن کے معاملے میں جوہر سرسوی اسم با مسمیٰ تھے۔ اردو شاعری کا یہ جوہر 22 مئی 1985 کو منوں مٹی تلے دب گیا۔ آج تک وہ اردو ادب کے ناقدین کی بے اعتنائی کا شکار ہیں۔ جوہر سرسوی کا شعری اثاثہ اردو ادب کا سرمایہ ہے۔ انہوں نے ناقدری کی شکار قصیدہ کی صنف کو جو وقار بخشا وہ قابل ستائش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو اسکالرز جوہر سرسوی کی حیات اور ادبی خدمات پر کام کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔