گاندھی جی کے عقیدت مند تھے رئیس امروہوی

رئیس امروہوی نے صبا عرفانی کے نام سے ادب تخلیق کرنا شروع کیا لیکن والد کے مشورے پر صبا عرفانی سے رئیس امروہوی ہوگئے۔ ان کی شاعری کا آغاز نظم سے ہوا اور پھر غزل پر توجہ مرکوز کی۔

<div class="paragraphs"><p>رئیس امروہوی</p></div>

رئیس امروہوی

user

جمال عباس فہمی

'اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے' مصرع تو ہر اردو والے کو یاد ہے لیکن یہ مصرع کس شاعر کا ہے۔ یہ کس شعر کا مصرع ہے یا کسی نظم کا مکھڑا، یہ زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔ ہم آپ کا تجسس ختم کئے دیتے ہیں۔ یہ زباں زد خاص و عام مصرع اردو کے معروف شاعر، صحافی، اسکالر، ماہر تحلیل نفسی اور مفکر رئیس امروہوی کی ایک نظم کا مصرع تکراریہ ہے۔ یہ نظم انہوں نے کراچی میں اردو کے نام پر بھڑکے لسانی فسادات کے پس منظر میں کہی تھی۔ مکمل نظم اسی مضمون میں قارئین کے لئے پیش کی جائے گی۔ رئیس امروہوی گونا گوں صلاحیتوں کے مالک تھے لیکن انہوں نے شہرت ایک قطعہ گو شاعر کے طور پر حاصل کی۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس سے کم لوگ واقف ہیں وہ ہے گاندھی جی سے ان کی والہانہ عقیدت۔ رئیس امروہوی کی قلمی خدمات پر تفصیل سے گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر کے بارے میں بات کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

رئیس امروہوی امروہہ کے ایک نہایت علمی، مذہبی اور ادبی گھرانے کی فرد تھے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا اپنے دور کے جید عالم اور استاد شاعر تھے۔ اردو، عربی فارسی، انگریزی، سنسکرت اور عبرانی زبان کے ماہر تھے۔ رئیس امروہوی 12 ستمبر 1914 کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ معروف شاعر، فلسفی، مفکر اور مترجم جون ایلیا ان کے سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ رئیس امروہوی سے چھوٹے بھائی سید محمد تقی عالمی شہرت یافتہ فلسفی تھے۔ رئیس امروہوی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔


رئیس امروہوی نے صبا عرفانی کے نام سے ادب تخلیق کرنا شروع کیا لیکن والد کے مشورے پر صبا عرفانی سے رئیس امروہوی ہوگئے۔ ان کی شاعری کا آغاز نظم سے ہوا اور پھر غزل پر توجہ مرکوز کی۔ 19 اکتوبر 1947 کو وہ ترک وطن کرکے پاکستان چلے گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ کراچی سے شائع ہونے والے روزنامہ 'جنگ' سے انہیں قطعہ گو شاعر کے طور پر شہرت ملی۔ انہوں نے 'جنگ' کے لئے پچاس برس سے زیادہ عرصہ تک سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی موضوعات پر قطعات اور کالم تحریر کئے۔ رئیس امروہوی کی فکر اور قلم کی دسترس نظم کی طرح نثر پر بھی بہت مستحکم تھی۔ انہوں نے ما بعد الطبیعات، نفسیات، برزخ، جنات، یوگا اور مراقبہ' جیسے دقیق موضوعات پر مضامین اور کتابیں لکھیں۔

رئیس امروہوی نے 'بھگوت گیتا' کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ رئیس امروہوی نے غزل، نظم، مثنوی، مرثیہ، رباعی اور قطعات میں اپنی فکر کی جولانیوں کا مظاہرہ کیا۔ وہ پاکستان میں اردو زبان کے فروغ و ترویج اور اردو بولنے والوں کے حقوق کے تحفظ اور ترقی کی تحریک میں پیش پیش رہتے تھے۔ نوجوان نسل کو اردو کی جانب راغب کرنے کے لئے انہوں نے رئیس اکیڈمی قائم کی۔ 1972 میں سندھ حکومت نے سندھی زبان کے فروغ کے لئے اسمبلی میں لسانی بل پیش کیا۔ جس کے سبب تنازعہ کھڑا ہو گیا اور زبان کے نام پر فساد پھوٹ پڑا۔ یہی وہ دور تھا جب رئیس امروہوی نے اپنی مشہور زمانہ نظم 'اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے' کہی۔


کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے

کیوں نالۂ حسرت دل مغموم سے نکلے

آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے

کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

.....

اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی

ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی

مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی

یہ میت غم‌ دہلی مرحوم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

.....

اے تاج محل نقش بہ دیوار ہو غم سے

اے قلعۂ شاہی یہ الم پوچھ نہ ہم سے

اے خاک اودھ فائدہ کیا شرح‌ ستم سے

تحریک یہ مصر‌ و عرب و روم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

.....

سایہ ہو جب اردو کے جنازے پہ ولیؔ کا

ہوں میر تقیؔ ساتھ تو ہم راہ ہوں سوداؔ

دفنائیں اسے مصحفیؔ و ناسخؔ و انشاؔ

یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

.....

بد ذوقی احباب سے گو ذوق ہیں رنجور

اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور

تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور

فریاد دل غالبؔ مرحوم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

.....

ہے مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم

کہہ دو کہ انیسؔ اس کا لکھیں مرثیۂ غم

جنت سے دبیرؔ آ کے پڑھیں نوحۂ ماتم

یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

.....

اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے

پہلے کوئی سرسیدؔ اعظم کو خبر دے

وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے

وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

.....

اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی

صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی

آزادؔ و نذیرؔ و شررؔ و شبلیؔ و حالیؔ

فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

رئیس امروہوی بانی پاکستان محمد علی جناح کی تقسیم وطن کی حکمت عملی کے خلاف تھے۔ بحیثیت قلمکار انہوں نے مسلم لیگ کے لیڈروں کی پالیسی پر نکتہ چینی سے گریز نہیں کیا۔

قائدان لیگ کی شان مسیحائی تو دیکھ

دس کروڑ افراد قربانی کا بکرا بن گئے

 رئیس امروہوی گاندھی جی کے سچے عقیدت مند تھے۔ وہ گاندھی جی کے فلسفہ حیات سے بہت متاثر تھے۔ ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے کچھ عرصہ بعد ہی گاندھی جی کو قتل کر دیا گیا۔ گاندھی جی کے قتل کی خبر سے رئیس امروہوی کا دل تڑپ گیا۔

 آہ! گاندھی کی شہادت وہ بھی ایک ہندو کے ہاتھ

 موت اسے کہتے ہیں جس کا نام ہے شانِ حیات

معجزہ ایک پستہ قد انساں کا بھارت میں نجات

گوتم اور گیتا کا ایک اوتار تھی گاندھی کی ذات


گاندھی جی کے فلسفے کی افادیت کا رئیس امروہوی کو اندازہ تھا۔

نہ دیکھو کے آخر جیا کس طرح

 یہ دیکھو کہ مر کر وہ کیا بن گیا

غرض یہ کی جل بُجھ کر گاندھی کا جسم

عجب نسخۂ کیمیا بن گیا

رئیس امروہوی کی نظر میں گاندھی جی صرف ہندوستان کا سرمایہ نہیں تھے بلکہ ان کی صورت میں ریئس امروہوی کو ایشیائی قوموں کا نجات دہندہ نظر آتا تھا۔

فقط ہندوستان کیا، ایشیا کو ناز اس پر تھا

لنگوٹی بند لیکن وقت کے شاہوں سے بڑھ کر تھا

وفا کا، عزم کا، ایثار کا، جرت کا پیکر تھا

وہ ہندو تھا مگر لاکھوں مسلمانوں سے بڑھ کر تھا

.....

سر اس کا چھو رہا تھا آسمان کو

قدم اس کا زمینوں پر گڑا تھا

حقارت سے نہ گاندھی جی کو دیکھو

وہ پستہ قد ہمالیہ سے بڑا تھا

رئیس امروہوی حق و صداقت کی راہ میں گاندھی جی کی ثابت قدمی کی اس طرح تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

دنگ تھے انگریز گاندھی جی کے ہر اعلان سے

لاکھ دشمن تھے مگر بھاگا نہ وہ میدان سے

ہے فقط جس کی توقع صاحبِ ایمان سے

موت کو خوش آمدید اس نے کہا اس شان سے

رئیس امروہوی نے گاندھی جی کے پیغام کی آفاقیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا۔

لاکھ گاندھی جی زمانے سے اٹھے

یاد ان کی راہ بھی رہبر بھی ہے


یہ رئیس امروہوی کا ہی جگر تھا کہ پاکستان میں بیٹھ کر انہوں نے گاندھی جی کی مدح سرائی کی۔ رئیس امروہوی نے غزلیں بھی کہیں۔ ان کی غزلوں کا آہنگ ان کے معاصرین سے یکسر جداگانہ ہے۔

ہجوم غم سے مفر کا خیال کیوں آیا

یہ سوچتا ہوں سفر کا خیال کیوں آیا

اثر کے بعد دعا کا خیال کیوں ہوگا

 دعا کے بعد اثر کا خیال کیوں آیا

ابھی تو شہر میں قحط شراب ناب نہیں

کسی کی مست نظر کا خیال کیوں آیا

کمال عظمت حق کا خیال کیا کم تھا

ذوال نوع بشر کا خیال کیوں آیا

 ایک قطعہ گو شاعر کے طور پر رئیس امروہوی کی پہچان روز نامہ جنگ میں یومیہ ایک قطعہ کی اشاعت کے سبب قائم ہوئی۔ وہ مختلف موضوعات پرقطعات نظم کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر ان کا لہجہ شوخ ہوتا تھا۔

کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں

میں نے کہا کہ وجہ تباہی یہی تو ہے

ہم لوگ ہیں عذاب الہیٰ سے خبر

اے بے خبر عذاب الہیٰ یہی تو ہے

.....

ہم نے ڈالی سماج پر جو نظر

 لوگ بیزار آگہی نکلے

 کچھ حقیقی افیمچی دیکھے

کچھ سیاسی افیمچی نکلے

.....

صحافت کی پابندیاں دیکھ کر

یہ بات آئی کل شب مرے دھیان میں

کہ اب انگلیوں سے لکھو حال دل

قلم رکھ کے اپنا قلم دان میں


پاکستان میں اردو بولنے والوں کے تئیں نفرت کا بازار جب گرم ہوا اور بڑے بڑے لائق اور قابل افراد کو محض اس لئے قتل کیا جارہا تھا کہ وہ مہاجر تھے تب رئیس امروہوی نے یہ قطعہ کہا۔

ملک الموت سے ٹکرا کے رئیس

 دیکھنا ہے کہ کہاں گرتے ہیں

ہم کہ اس شہر کے بازاروں میں

سر ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں

22 ستمبر 1988 کو وہ سیاہ دن بھی آیا جب رئیس امروہوی مہاجروں سے نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان کو ان کے اسٹیڈی روم میں سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔