یہ راہل گاندھی کی رکنیت کا نہیں، مودی حکومت کے خاتمے کا آغاز ہے... سہیل انجم

کہتے ہیں کہ جب کسی ڈکٹیٹر کا زوال شروع ہوتا ہے تو اس کی عقل خبط ہو جاتی ہے اور وہ ناعاقبت اندیشانہ فیصلے کرکے اپنے خاتمے کا آغاز کر دیتا ہے۔ راہل کے خلاف فیصلہ بھی موجودہ حکومت کے خاتمے کا آغاز ہے۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی، تصویرقومی آواز/ ویپن</p></div>

راہل گاندھی، تصویرقومی آواز/ ویپن

user

سہیل انجم

کہتے ہیں کہ جب کسی ڈکٹیٹر یا آمر حکمراں کے دن قریب آجاتے ہیں تو اس کی مَت ماری جاتی ہے اور وہ ایسے فیصلے کرنے لگتا ہے جو خود اس کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ ایسے حکمراں مخالفین سے بہت ڈرتے ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر ہر مخالف آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں۔ چونکہ وہ عدم تحفظ کے احساس کے شکار ہوتے ہیں اس لیے چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی بھی مخالف سر نہ اٹھائے۔ اگر کوئی اٹھاتا ہے تو اسے کچل دیا جائے۔ حالانکہ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جمہوری نظام میں جتنی اہمیت ایک منتخب حکومت کی ہے اتنی ہی اہمیت حزب اختلاف کی بھی ہے۔ اس کے لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نظام کی گاڑی انھی دونوں پہیوں پر چلتی ہے۔ لیکن جب کسی حکومت کی ڈھٹائی اور جمہوری روایتوں سے بغاوت بڑھنے لگتی ہے تو پھر جمہوریت آمریت میں بدل جاتی ہے اور وہ حکمراں غیر جمہوری فیصلے کرکے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔

اگر ہم ہندوستان میں 2014 کے بعد سے اب تک کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ کہنا پڑے گا کہ موجودہ حکومت نے جمہوریت کو کمزور اور آمریت کو رواج دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے منتخب ہو گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ کوئی راجہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی حکومت ہمیشہ کے لیے ہے اور اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ حکومت جمہوریت کے دوش پر سوار ہو کر آئی ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی احسان فراموش شخص جب کسی کے سہارے اوپر چڑھتا ہے تو پھر وہ لات مار کر اسی سہارے کو گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ بی جے پی جمہوری نظام کی سیڑھی پر چڑھ کر اقتدار کے ایوان تک پہنچی ہے لیکن وہ اب اسی سیڑھی کو لات مار کر گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔


ہندوستان میں کانگریس سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ وہ 138 سال پرانی ہے اور اس کے دوش پر اس کی عظیم الشان وراثت موجود ہے۔ اس کے پاس اس ملک پر سب سے لمبے عرصے تک حکومت کرنے کا ریکارڈ ہے۔ ملک کی ترقی میں اس پارٹی نے جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ کسی اور پارٹی نے نہیں کیا۔ اس وقت اس پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر راہل گاندھی ہیں۔ وہ موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف نہ صرف چٹان بن کر کھڑے ہیں بلکہ ان کے خلاف بہ بانگ دہل بول بھی رہے ہیں۔ خواہ وہ مہنگائی کا معاملہ ہو یا بے روزگاری کا یا پھر عوام کو مذہب کے نام پر لڑانے کا ہو یا آئڈیا آف انڈیا کو ختم کرنے کا یا پھر آئینی و جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کا۔ راہل گاندھی نے ہر معاملے پر کھل کر حکومت کی نکتہ چینی کی ہے اور نہ صرف بی جے پی بلکہ آر ایس ایس کو بھی ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھا ہے۔

جب نیرو مودی، للت مودی، وجے مالیہ اور میہول چوکسی جیسے بدعنوان ملک کی اربوں کی دولت لوٹ کر ہندوستان سے فرار ہو گئے تو سب سے بلند آواز جو اٹھی تھی وہ راہل گاندھی ہی کی تھی۔ اور پھر جب امریکہ کی ایک کمپنی ہنڈنبرگ نے گوتم اڈانی کی بدعنوانیوں کی پول کھولی تو اس وقت بھی راہل گاندھی ہی سب سے تیز آواز میں اس معاملے کی جانچ کا مطالبہ کرتے رہے۔ ان کے مطالبے پر پورا اپوزیشن ایک ہو گیا اور سبھی نے اس معاملے کی جانچ کے لیے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ لیکن اس حکومت نے اپنے وطیرے کے مطابق اپنی آنکھوں اور کانوں کو بند رکھا۔ وہ گونگی اور بہری ہو گئی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب پارلیمنٹ میں اس معاملے کو اٹھانے کی کوشش کی گئی تو اس کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔


 یہ حکومت اپنے سب سے بڑے مخالف راہل گاندھی سے خوف زدہ ہو گئی۔ وہ ان کی آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگی۔ ادھر راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کرکے اپنی جو امیج بنائی اور جس سے ان کو غیر سنجیدہ سیاست داں قرار دینے کی بی جے پی اور پورے سنگھ پریوار کی مہم دھڑام سے زمین پر آرہی تو حکومت اور بھی ڈر گئی۔ اس نے سوچا کہ اگر راہل گاندھی کے پیروں میں زنجیر نہیں ڈالی گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ لہٰذا پہلے پارلیمنٹ میں ان کا مائک بند کیا جانے لگا اور پھر انھیں طرح طرح سے پریشان کیا جانے لگا۔ اس سے قبل ای ڈی کی جانچ سے ان کو اور ان کی والدہ سونیا گاندھی کو ڈرانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب انھوں نے ڈرنے سے انکار کر دیا تو پھر انتہائی قدم اٹھا لیا گیا۔

یہ انتہائی قدم راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت کا خاتمہ ہے۔ جب حکومت نے دیکھا کہ وہ پارلیمنٹ میں ان کی آواز دبانے میں ناکام ہے تو اس نے سوچا کہ کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے کہ راہل پارلیمنٹ ہی میں نہ آسکیں۔ 2019 کے انتخابات کے دوران کرناٹک کے کولار میں راہل گاندھی نے ایک تقریر کے دوران سوال کیا تھا کہ جتنے چور ہیں ان کے ناموں کی کنیت مودی کیوں ہے۔ اس تسلسل میں انھوں نے نیرو مودی، للت مودی اور نریندرمودی کا نام لیا۔ گجرات کے ایک بی جے پی ایم ایل اے اور سابق وزیر پرنیش مودی نے راہل کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کر دیا۔ حالانکہ راہل نے ان کا نام نہیں لیا تھا۔ جن تین لوگوں کے نام لیے تھے ان میں سے دو ملک سے باہر ہیں اور تیسرے وزیر اعظم ہیں۔ اگر مقدمہ کرنا تھا تو وزیر اعظم نریند رمودی کو کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ایک غیر متعلق شخص سے مقدمہ کروایا گیا تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ بھائی ہم نے تو کچھ نہیں کیا ہے۔


لیکن اس مقدمے کی سماعت شروع نہیں ہو سکی۔ ایک اعلیٰ عدالت نے اس پر اسٹے دے رکھا تھا۔ جب اسٹے کو ہٹایا گیا تو سماعت شروع ہو گئی۔ راہل ہر سماعت پر خود عدالت میں حاضر ہوتے رہے۔ لیکن بہرحال عدالت نے راہل گاندھی کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے انھیں دو سال کی جیل کی سزا سنا دی۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت اگر کسی ایم پی، ایم ایل اے یا ایم ایل سی کو دو سال یا اس سے زیادہ کی سزا سنائی جاتی ہے تو اس کی رکنیت از خود ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے قبل لالو یادو، اعظم خاں، وکرم سینی اور فیصل خاں کی رکنیت ایسے ہی معاملات میں ختم ہو چکی ہے۔

لیکن کیا سزا صرف یہیں تک ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ قانون کے مطابق ایسا شخص چھ سال تک الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو راہل گاندھی کے خلاف انتہائی منظم انداز میں کارروائی کی گئی ہے۔ عدالت نے انھیں فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے تیس دن کی مہلت دی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق فیصلے میں کئی خامیاں ہیں اور کانگریس پارٹی کی جانب سے اسے اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ خامیوں کے پیش نظر فیصلے کو یا تو کالعدم کر دیا جائے گا یا پھر اسٹے دے دیا جائے گا۔


یہ قانونی معاملات اپنی جگہ پر۔ لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت نے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ اس فیصلے کا سب سے پہلا اور واضح نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ اپوزیشن جو بکھرا ہوا تھا اور جس کے متحد ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے تھے، متحد ہونے لگا ہے۔ سب سے پہلا اور دو ٹوک بیان عام آدمی پارٹی کا آیا۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اسے اپوزیشن کے خلاف حکومت کی کارروائیوں کا حصہ قرار دیا اور تمام اپوزیشن پارٹیوں سے اپیل کی کہ وہ متحد ہو جائیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کانگریس سے دور دور رہتی تھیں۔ انھوں نے اپوزیشن اتحاد کی کانگریس کی کوششوں کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ انھوں نے گزشتہ دنوں اکھلیش یادو سے مل کر تیسرے محاذ کے قیام کی بات کہی۔ لیکن انھوں نے بھی راہل کے حق میں اور مودی حکومت کے خلاف بیان دیا ہے۔

ادھر اکھلیش یادو نے بھی راہل سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر بھی تیسرے محاذ کی بات کرتے رہے ہیں۔ اب انھوں نے بھی راہل کی حمایت کی ہے۔ مہاراشٹرا کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے بھی راہل کی طرفداری اور مودی حکومت کی مخالفت کی ہے۔ اس طرح وہ اپوزیشن جو متحد ہونے کے لیے تیار نظر نہیں آرہا تھا ایک جٹ ہونے لگا ہے۔ یعنی اس فیصلے سے حکومت کو نقصان اور اپوزیشن کو فائدہ ہوا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ راہل کے خلاف سزا کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔ عوام انھیں بجا طور پر ایک مظلوم کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا اس کا دوسرا جو بڑا نتیجہ نکلے گا وہ 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں نکلے گا۔


تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت نے دراصل راہل گاندھی کے راستے میں گڈھا نہیں کھودا ہے بلکہ اپنے راستے میں خندق کھود لی ہے۔ اس نے جان بوجھ کر اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ توقع ہے کہ یہ معاملہ اس سیاسی صورت حال کو ختم کر دے گا جو ملک کو جمہوریت کے بجائے آمریت کی طرف لے جا رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ جب کسی ڈکٹیٹر کا زوال شروع ہوتا ہے تو اس کی عقل خبط ہو جاتی ہے اور وہ ناعاقبت اندیشانہ فیصلے کرکے اپنے خاتمے کا آغاز کر دیتا ہے۔ راہل گاندھی کے خلاف فیصلہ بھی موجودہ حکومت کے خاتمے کا آغاز ہے۔  

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */