اردو ادب کی پر اثر نسائی آواز، عذرا نقوی... جمال عباس فہمی

عذرا نقوی فطری طور پر شاعرہ ہیں۔ شاعری انہیں ماں کی طرف سے ورثہ میں ملی ہے۔ وہ غزلیں اور نظمیں نظم کرتی ہیں لیکن ان کی پسندیدہ صنف نظم ہے۔ ان کی غزلوں میں کبھی کبھی جون ایلیا کا آہنگ جھلکتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>عذرا نقوی</p></div>

عذرا نقوی

user

جمال عباس فہمی

یہ بھی عجب طرفہ تماشا ہے کہ ادب کی ہر صنف میں موضوع سخن خاتون ہی ہوتی ہے۔ شاعری ہو کہ فکشن نگاری اہل قلم کا مرکز نظر و تخیل خاتون ہی ہے۔ لیکن خود ادب تخلیق کرنے والی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے ہمیشہ بہت کم رہی ہے۔ لیکن خاتون قلمکاروں کی قلیل تعداد میں ایسی خاتون قلمکار بھی شامل ہیں، جنہوں نے اردو ادب پر اپنے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔ اردو ادب کی خدمت کرنے میں اقلیت میں ہونے کے باوجود خاتون قلمکاروں نے مساویانہ طریقے سے اپنا حق ادا کیا ہے۔

عذرا نقوی ایک ایسی ہی خاتون قلمکار ہیں جنہوں نے جتنا بھی ادب تخلیق کیا وہ بہت معیاری ہے۔ عذرا نقوی شاعرہ بھی ہیں، افسانہ نگار بھی، ترجمہ نگار بھی ہیں، مرتبہ بھی۔ صحافیہ بھی ہیں اور کالم نگار بھی۔ استاد بھی ہیں اور ریڈیو اناؤنسر بھی ہیں۔ عذرا نقوی اگر ہمہ جہت صفات و کمالات کی مالکہ ہیں تو ایک علمی اور ادبی خانوادے کی فرد ہونے کے ناطے انہیں ایسا ہونا ہی زیب دیتا ہے۔ ادب تخلیق کرنے کا جوہر عذرا نقوی کو ورثہ میں ملا ہے۔ ان کے خون میں اردو ادب رچا بسا ہے۔ انہیں ددیہال اور ننیہال دونوں طرف سے ادبی ذوق تفویض ہوا ہے۔ عذرا نقوی کی ادبی خدمات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا جائزہ لینا درست معلوم ہوتا ہے۔


عذرا نقوی کے نانا مورث اعلیٰ سید حسن بندگی سولھویں صدی میں ازبیکستان کے جنوبی شہر ترمذ سے ہجرت کرکے ہندستان آئے تھے۔ وہ امام حسین کے فرزند امام زین العابدین کے صاحب زادے حسین اصغر کی اولاد میں سے تھے۔ فرخ آباد اور کان پور کے درمیان قنوج سے تھوڑے فاصلے پر انہوں نے قیام کیا تھا۔ وہاں ایک خانقاہ تعمیر کی تھی۔ ان کے علم و حکمت کا شہرہ جلد ہی پھیلنے لگا تھا۔ قرب و جوار میں رہنے والوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا تھا، ان کے ذریعے تعمیر خانقاہ آج بھی اجڑی ہوئی شکل میں داعی پور میں موجود ہے۔

عذرا نقوی کا گھریلو نام شمع زہرا ہے۔ وہ 22 فروری 1952 میں امروہہ کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد حسین احمد قیصر نقوی ماہر تعلیم اور سماجی خدمت گار تھے۔ ان کا سلسلہ نسب کرشماتی بزرگ سید حسین شرف الدین سے ہوتا ہوا امام علی نقی سے جا کر ملتا ہے۔ اس طرح عذرا نقوی ننیہال کی طرف سے امام زین العابدین اور ددیہال کی جانب سے امام علی نقی کی نسل سے ہیں۔ عذرا نقوی کے دادا سید غلام احمد کاتب اور خطاط تھے۔ مذہبی شاعری کرتے تھے۔ ان کی نظم کردہ مناجات کا شہرہ دور دورتک تھا۔ بچوں کے ادب کے لئے ساہتیہ اکیڈمی کے انعام یافتہ غلام حیدر عذرا نقوی کے چچا ہیں۔


خود عذرا نقوی کی والدہ سیدہ فرحت شاعرہ تھیں۔ عذرا نقوی کے دو بھائی عارف اختر نقوی اور پروفیسر آصف اختر نقوی ادیب اور شاعر ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ عذرا نقوی معروف گاندھیائی دانشور، ماہر تعلیم اور مجاہد آزادی ڈاکٹر سید عابد حسین کی بھتیجی ہیں۔ اس رشتے سے وہ اردو کی معروف ادیبہ ڈاکٹر صالحہ عابد حسین کی بھی بھتیجی ہوئیں۔ اسی خانوادے کی ایک اور فرد صاحب طرز فکشن نگار اور تنقید نگار ڈاکٹر صغرا مہدی عذرا نقوی کی سگی خالہ تھیں۔ اردو ادب میں بہ حیثیت مجموعی خاتون اہل قلم کی تعداد کا فیصد اہل قلم مردوں کے لحاظ سے بھلے ہی بہت کم ہو لیکن عذرا نقوی کے خانوادے میں خواتین اہل قلم کا فیصد مرد قلمکاروں کے آس پاس ہی ہے۔

عذرا نقوی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیا۔ جے این یو دہلی سے ایم فل کیا۔ ایجوکیشن میں ڈپلوما کینیڈا سے کیا۔ انہوں نے درس و تدریس کے مقدس پیشے کو اختیار کیا۔ ان کے شوہر ڈاکٹر پرویز احمد آئی ٹی پروفیشنل تھے 38 برس تک وہ اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا اور مشرق وسطیٰ میں رہیں۔۔ وہ ہندوستان، کینیڈا اور سعودی عرب میں مختلف تعلیمی اداروں میں درس وتدریس سے وابستہ رہیں۔ ان کی شخصیت کے گونا گوں پہلو ہیں۔


انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں اناونسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ کینیڈا میں بھی وہ کمیونٹی ریڈیو سے منسلک رہیں۔ مانٹریال میں قیام کے دوران ساؤتھ ایشیا کمیونٹی سینٹر برائے خواتین(SAWCC)  سے وابستہ رہیں اور" تیسری دنیا'' نامی تھیئٹر گروپ کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔ جدہ سے شائع ہونے والے اردو روزنامے '' اردو نیوز ''اور انگریزی روزنامے ''سعودی گزٹ'' سے وہ آزاد صحافی کے طور پر منسلک رہیں۔ انہوں نے ایک سنجیدہ اور متین لہجہ کی شاعرہ کے طور پر شناخت قائم کی ہے۔ ان کی شاعری، افسانوں، انشائیوں، اخباری کالم اور مضامین کے مجموعے شائع ہو کر باذوق افراد کی داد و تحسیں حاصل کرچکے ہیں۔

انہوں نے اپنی والدہ سید فرحت کے کلام کو 'کلیات فرحت' کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ عذرا نقوی کو انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کی معروف خاتون قلمکاروں کی منتخب کہانیوں کو انگریزی زبان سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ عرب کی افسانہ نگار خواتین قلم کاروں کی نگارشات کا اردو ترجمہ پڑھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کہانی ترجمہ شدہ ہے بلکہ یہ عذرا نقوی کی طبع زاد کہانیاں لگتی ہیں۔عذرا نقوی نے سعودی عرب کے مشہور صحافی احمد السباعی کی سوانح حیات کا "میرے شب وروز" کے نام سے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ عذرا نقوی اردو ادب کی معروف زمانہ ویب سائٹ 'ریختہ' سے بھی منسلک ہیں۔


جتنی سادگی عذرا نقوی کی شخصیت میں ہے اتنا ہی سادہ ان کا طرز تحریر بھی ہے۔ لیکن اس سادگی میں بھی وہ زبان کی شائستگی اور شیرینی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ انہوں نے اپنی ننیہال داعی پور میں گزارے بچپن کے دور کو''گنگا کنارے، یادوں کے سفر'' کے عنوان سے بہت دلچسپ انداز میں قلم بند کیا ہے، اس دلچسپ تحریر کا ایک مختصر سا اقتباس عذرا نقوی کے زبان و بیان پر قدرت کا بہترین نمونہ ہے۔

''یہ نہیں کہ بڑے بابا صرف شاہنامے اور شاعری میں ڈوبے رہتے تھے۔ نماز و روزے کے پابند تھے۔ بچوں سے بھی خوب باتیں کیا کرتے تھے۔ رضا ماموں کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے پتنگ بناتے تھے۔ ان کے ساتھ اڑاتے تھے۔ اللہ میاں سے ان کا تعلق تو جیسے دوستانہ تھا۔ ایک بار جاڑے کی سہ پہر کو رضا ماموں کے ساتھ پتنگ اڑا رہے تھے۔ عصر کی نماز کا وقت تنگ تھا، کسی نے کہا میاں نماز کا وقت نکل جائے گا، مگر وہ پتنگ کے کسی داؤ پیچ میں الجھے تھے، نماز کی بھی فکر تھی، ڈھلتے سورج کی طرف دیکھ کر کہتے جاتے ' آج اللہ میاں کو بھی جلدی ہے، ذرا رک کے سورج ڈھل جاتا تو کوئی مضائقہ تھا'۔ ایک بار بہت تیز ہوا چل رہی تھی، ان کی ٹوپی اڑی جارہی تھی، وہ نماز پڑھنے جا رہے تھے۔ بس روٹھ گئے اپنے اللہ میاں سے 'اچھا اب آپ ہوا ہی چلا لیں، ہم نہیں پڑھتے ابھی نماز۔ جیسی آپ کی مرضی''


عذرا نقوی فطری طور پر شاعرہ ہیں۔ شاعری انہیں ماں کی طرف سے ورثہ میں ملی ہے۔ وہ غزلیں اور نظمیں نظم کرتی ہیں لیکن ان کی پسندیدہ صنف نظم ہے۔ ان کی غزلوں میں کبھی کبھی جون ایلیا کا آہنگ جھلکتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی یہ غزل جو جون ایلیا ہی کی زمین میں ہے۔ اس میں جون سے خطاب بھی ہے۔

یہ دل بس میں کبھی میرے رہا نئیں

کبھی یادوں کا دامن چھوڑتا نئیں

بھُلائیں کیسے امروہے کی گلیاں

ابھی لہجے سے امروہہ گیا نئیں

ارے بالے! یہ *بولپاّ ہے کیسا

ہے غم، اس طرح کوئی ٹوکتا نئیں

میں سمجھوں ہوں، تمہاری بے قراری

میاں! گذرا زمانہ لوٹتا نئیں

بہت تھی دُھوم جشنِ ریختہ* میں

تمہارے نام کی، تم نے سُنا نئیں

تمہاری شاعری پر سر دُھنیں ہیں

مگر یہ لوگ اُردو آشنا نئیں

پڑی ہے شاعری گھٹّی میں عذرا

مگر کچھ معبتر اب تک کہا نئیں


 ذرا نقوی کی نظموں میں الفاظ کی جادو گری بھی نظر آتی ہے۔ منظر نگاری بھی اور احساس کرب بھی۔

زندگی کی تلخیاں، ناکامیاں، ٹوٹے ہوئے

خوابوں کی کرچیں

روز وشب کو مضمحل کر دیں

تو میرے ساتھ آوُ

ذرا ٹہرو

میں اپنی جادو نگری کی جھلک دکھلاوُں تم کو

وہ دیکھو کس طرح سے آسماں کے کینوس پر بادلوں کا رقص ہوتا ہے

کبھی تم نے گھنے جنگل میں شاخوں سے ٹپکتے شبنمی موتی نہیں دیکھے؟

کبھی سرما کی رْت میں برف کی چادر پہ بکھری چاند کی روپا نہیں دیکھی؟

کبھی گندم کے کھیتوں میں اٗگا سونا نہیں دیکھا؟

کبھی اونچی چٹانوں، کوہساروں سے گئی صدیوں کے افسانے سنے تم نے؟

کسی گمبھیر ساحل سے نہیں دیکھا؟

کہ کیسے چیختا۔بپھرا سمندر دھیرے دھیرے شانت ہوتا ہے

کبھی معصوم بچوں کی ہنسی کے نقرئی گھنگرو سمیٹے ہیں؟

کبھی چاہت کے ہونٹوں سے کسی جلتے ہوئے ماتھے کو چوما ہے؟

ذرا سوچو !

کہ تم نے ماں کی لوری کی حلاوت

خاندانوں کی شرافت

پیار کی راحت نہیں پائی؟

ذرا سوچو !

یہ ساری جادونگری مہرباں دنیا تمہاری ہے

عذرا نقوی نے ایک کامیاب زندگی گزاری ہے۔ اردو علم و ادب میں ایک شناخت قائم کی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔ لیکن وہ اپنی اس محرومی سے آزردہ خاطر نہیں ہیں۔ خود کو انہوں نے علم و ادب کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔