’ماہرامروہہ‘ ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی... جمال عباس فہمی

مصباح صدیقی کے قلم سے 20 کتابیں تصنیف و تالیف ہوئیں۔ امروہہ کے حوالے سے ابھی ان کے قلم سے بہت کچھ رقم ہونا ہے۔ اس طرح 'ماہر امروہہ' کے طور پر ان کی شناخت اور بھی مستحکم ہوگی۔

ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی
ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی
user

جمال عباس فہمی

جس طرح دائی سے پیٹ نہیں چھپ سکتا۔ اسی طرح مصباح احمد صدیقی سے امروہہ کی کوئی علمی ادبی اور مذہبی خصوصیت پوشدہ نہیں رہ سکتی۔ مصباح احمد صدیقی نے امروہہ کے مسلم شعرا۔ امروہہ کے ہندو شعرا، امروہہ کے فارسی شعرا، امروہہ کے نعت گو شعرا، افسانہ نگاروں، نثر نگاروں اور امروہہ کے علما پر کتابیں لکھی ہیں۔ جنگ آزدی میں امروہہ کے مجاہدین کی حصے داری پر بھی انہوں نے کتاب اور مضامین لکھے ہیں۔ انہوں نے امروہہ کے دینی مدارس پر بھی تحقیقی کام کیا ہے۔ انہوں نے امروہہ کے بارے میں تحریر تاریخوں کا بھی تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیا ہے۔

مصباح صدیقی نے ایک کتاب میں اہالیان امروہہ کے شجرے بھی کھنگال ڈالے۔ ان کی اس کتاب پر کافی لے دے بھی ہوئی تھی۔ مصباح صدیقی نے امروہہ کے شعرا کے کلام پر تنقیدی اور تبصراتی مضامین بھی لکھے ہیں۔ انہوں نے امروہہ کے صوفیا اور اولیا پر بھی لکھا ہے۔ غرض امروہہ سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جس پر مصباح احمد صدیقی نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ 20 کتابوں کے مرتب اور مصنف مصباح احمد صدیقی اور کیا ہیں ان کی ادبی خدمات کے بارے میں تفصیل سے بات کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی اور تربیتی سفر کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔


مصباح احمد صدیقی کا اصل نام بھی مصباح احمد صدیقی ہی ہے۔ ان کی پیدائش ایک معزز علمی اور ادبی خانوادے میں 24 اکتوبر 1964 میں ہوئی۔ والد کا نام استجاب صدیقی تھا۔ ان کے مورث اعلیٰ شیخ ابو المناف صدیقی اپنے دور کے صاحب علم و ثروت تھے اور مغل شہنشاہ اکبر کے دربار میں منصب دار تھے۔ مصباح احمد صدیقی کا خانوادہ مناف پوتہ بھی کہلاتا ہے۔ امروہہ میں ایک پورا محلہ ہی گھیر مناف کے نام سے موجود ہے۔ ایک زمانے میں گھیر مناف میں شیخ مناف کی ہی اولادیں رہائش پذیر تھیں۔ مصباح احمد صدیقی کے خاندان میں حکیم محمد اسحاق 'پروین'، خلیفہ نوروز علی، فضل حسین 'بسمل' اور شمس الدین 'دانی' جیسی علمی، ادبی اور مذہبی ہستیاں گزری ہیں۔

مصباح احمد صدیقی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد میں ہوئی۔ بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کرلیا تھا۔ تجوید قرآن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ بچپن میں فارسی پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ قاضی عزیز احمد عباسی اور معروف مزاحیہ شاعر مولوی سلطان احمد شہباز امروہوی سے فارسی پڑھی۔ ابتدا سے لیکر بی اے تک فارسی میں ہمیشہ اچھے نمبر حاصل کئے۔ لوگ تو اردو میں منشی اور منشی کامل کرتے ہیں، مصباح صدیقی نے فارسی میں کیا۔ 1987 میں اردو میں ایم اے کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے سربراہ پروفیسر محمد طارق کے تحریک دلانے پر 1994 میں اے ایم یو سے فارسی میں ایم اے کیا اور اس میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈ حاصل کیا۔ اس بیچ ہندوستان میں لکھی جانے والی اپنی طرز کی پانچویں فارسی فرہنگ 'بحر الفضائل فی منافع الافاضل' کا تنقیدی مطالعہ اور تحقیق متن پر پروفیسر محمد طارق کی نگرانی میں ریسرچ کا کام شروع کیا۔ اس درمیان اردو ٹیچر کے طور سے ملازمت کرنے کا موقع ملا۔ گھریلو مالی حالات کے دیکھتے ہوئے 1995 میں ملازمت شروع کر دی، لیکن ریسرچ کا کام جاری رکھا۔


2011 میں فارسی فرہنگ 'بحر الفضائل فی منافع الافاضل' پر 'تنقیدی مطالعہ اور تحقیق متن' کے عنوان پر تحقیقی مقالہ لکھا جس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، مصباح احمد صدیقی کا قلمی سفر افسانہ نگاری سے اور تحقیقی کام اہل امروہہ کے حسب نسب کھنگالنے سے شروع ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ 'بو' ادبی ماہنامہ 'روبی' میں1987 میں شائع ہوا۔ امروہہ والوں کے شجروں پر مبنی کتاب 'تحفۃ الانساب' لکھنے کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ایم اے کرنے کے بعد مصباح احمد کو خیال آیا کہ کیوں نہ کسی موضوع پر پی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی جائے۔ یہ خیال آتے ہی مصباح صدیقی سنبھل کے ایک ڈگری کالج کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر صابر سنبھلی کے پاس پہنچ گئے اور ان سے مدعا بیان کیا۔ انہوں نے پوچھا کچھ لکھا بھی ہے تو مصباح نے کہا کچھ افسانے لکھے ہیں۔ وہ خفا ہو گئے کہنے لگے افسانہ لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی تحقیقی مضمون لکھ کے لائیے۔

اب مصباح احمد کو کسی ایسے موضوع کی تلاش تھی جس پر تحقیقی مضمون لکھا جائے۔ ان کے دوست اور درجنوں کتابوں کے مصنف جنید اکرم فاروقی نے مشورہ دیا کہ میاں اپنے خانوادے پر ہی مضمون لکھ ڈالو۔ اس طرح مصباح صدیقی نے کافی تحقیق اور جستجو کے بعد ابوالمناف کے خانوادے کے افراد کے حسب نسب پر ایک طویل مضمون تحریر کر دیا۔ تنقیدی جائزے کے لئے جن صاحب کو مضمون دیا انہوں نے پڑھنے کے بعد تعریف تو کی، لیکن یہ کہا کہ تمہارے خاندان کے افراد کے شجروں سے امروہہ والوں اور اردو ادب کو کیا فائدہ ہوگا۔ اپنے خاندان سے باہر نکلو اور دیگر قوموں اور ذاتوں کے افراد کے حسب نسب پر تحقیقی کام کرو۔ کافی تحقیق، جستجو اور عرق ریزی کے بعد مصباح صدیقی نے 1992 میں کتاب''تحفۃ الانساب'' تحریر کردی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد تو ایسا ہوا جیسے مصباح احمد نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ مصباح احمد صدیقی نے اپنی اس کتاب میں صدیقی، عباسی، فاروقی، جعفری، عثمانی، انصاری، علوی، مغل، افغان اور دیگر قوموں اور ذاتوں کے شجروں اور حسب نسب پر تحقیقی کام کیا اور مختلف قوموں اور خانوادوں سے تعلق رکھنے والی معروف اور معلوم شخصیتوں کا احاطہ کیا ہے۔ اس کتاب نے ان افراد کو چراغپاں کر دیا جنہوں نے خود کو اس قوم اور ذات سے منسوب کررکھا تھا جس سے ان کا دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ خود کو کسی اعلیٰ ذات اور حسب سے بقلم خود منسوب کرنے والے لوگ تو مصباح صدیقی کے پیچھے لٹھ لیکر دوڑ پڑے۔ مصباح صدیقی کے اس تحقیقی کارنامہ کی پذیرائی کم ہوئی، نکتہ چینی اور مخالفت زیادہ ہوئی۔ اس طرح تحقیقی دنیا میں مصباح صدیقی دھوم دھڑاکے کے ساتھ داخل ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ''تحفۃ الانساب'' تحریر کرنے میں مصباح احمد صدیقی نے عصبیت سے کام نہیں لیا اور جتنے شواہد دستیاب ہوئے انہیں روایت اور درایت کے اصولوں سے پرکھ کر درج کر دیا۔


مصباح احمد صدیقی کا ایک بڑا کام شعرا کے تذکرے تحریر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امروہہ کے شعرا، امروہہ کے نعت گو، شعرا، ہندو شعرا اور فارسی شعرا کے تذکرے تحریر کئے۔ کئی شعرا کے بکھرے ہوئے کلام کو یکجا کیا۔ کسی شاعر کے قلمی نسخے کو کتابی شکل دے کر منظر عام پر پیش کیا۔ انہوں نے 'شعرائے امروہہ' دو جلدوں میں ترتیب دی۔ اس میں عہد اکبری سے لیکر 2000 تک کے مرحوم شعرا کا تذکرہ اور نمونہ کلام شامل ہے۔ اپنی تحقیق اور تلاش کی بنیاد پر مصباح احمد صدیقی کا یہ دعویٰ ہے کہ اکبر کے دربار سے وابستہ نورالدین ملا نوری امروہہ کے پہلے اردو شاعر تھے، مصباح صدیقی نے تحقیق اور تلاش کے بعد امروہہ کے نعت گویوں، ہندو شعرا اور فارسی شعرا کے تعارف اور نمونہ کلام پر مبنی کتابیں تحریر کرکے اردو ادب کی دنیا کو امروہہ کی شعری ادبی خدمات سے روشناس کرایا۔ کراچی میں مقیم امروہہ کے نقوش نقوی نے امروہہ کے شعرا پر جو کتاب مرتب کی ہے اس میں انہوں نے مصباح احمد صدیقی کی امروہہ کے شعرا پر تحریر کتابوں سے کافی مدد لی ہے۔ مصباح صدیقی نے امروہہ کے علما اور دینی مدارس پر کتاب اور مضامین لکھ کر دینا کو امروہہ کی دینی اور مذہبی خدمات سے بھی واقف کرایا۔

مصباح صدیقی نے فارسی کے حوالے سے جو کام کیا ہے وہ بھی بہت گراں قدر ہے۔ انہوں نے سید مرتضیٰ الحسینی خادم کی فارسی تصنیف 'حدیقتہ الشعرا' کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ فارسی شعرا کا تذکرہ ہے۔عہد شاہجہانی میں لکھی گئی فارسی کتاب، 'اسرار کشف صوفیا' کا مصباح صدیقی نے اردو میں حواشی کے ساتھ ترجمہ کیا۔ یہ کتاب شمالی ہند کے صوفیا، علما اور شعرا کی مستند تاریخ ہے۔ مصباح صدیقی نے شیخ علی الدین فریدی کی فارسی تصنیف 'تکملہ جواہر فریدی' کا بھی مع حواشی کے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ مصباح صدیقی نے فارسی فرہنگ 'بحر الفضائل فی منافع الافاضل' کو ایڈٹ بھی کیا ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔


مصباح صدیقی نے اپنے تنقیدی اور تحقیقی مقالوں اور مضامین کو 'مشق قلم' کے عنوان سے ترتیب دیا۔ مختلف ادوار میں امروہہ کی تاریخییں لکھی گئیں۔ جن میں 'تاریخ امروہہ'، 'آئینہ عباسی'، 'نخبتہ التواریخ'، 'تاریخ اصغری' اور مرات الانساب' خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر مصباح احمد نے ان تمام تواریخ کا تحقیقی اور تنقیدی انداز میں تجزیہ کیا ہے، مصباح صدیقی نے مخلتف رسائل، جرائد اور سیمناروں کے لئے تقریباً 70 مقالے اور مضامین تحریر کئےہیں، ان کی ادبی خدمات اور شخصیت پر اردو اسکالر رئیس احمد ایک کتاب تحریر کر چکے ہیں۔ ان کی کئی تخلیقات کو انعام و اعزاز سے نوازہ جا چکا ہے۔

27 سال کی ملازمت کے دوران مصباح صدیقی کے قلم سے بیس کتابیں تصنیف و تالیف ہوئیں۔ اب وہ ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ امروہہ کے حوالے سے ابھی ان کے قلم سے بہت کچھ رقم ہونا ہے۔ اس طرح 'ماہر امروہہ' کے طور پر ان کی شناخت اور بھی مستحکم ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔