مودی کے ہندو راشٹر میں ہندو سب سے زیادہ پریشان... ظفر آغا

مودی نے سن 2014 سے اب تک یوپی اور بہار جیسے اہم صوبوں میں پسماندہ اور دلت ذاتوں کو حاشیے پر پہنچا دیا ہے، یعنی ان صوبوں میں منووادی سماجی نظام لاگو ہو چکا ہے اور یہی سَنگھ کے ہندو راشٹر کی پہلی شرط ہے

Getty Images
Getty Images
user

ظفر آغا

نریندر مودی کے اقتدار کے 8 سال (2022-2014) گویا آٹھ برس نہیں آٹھ صدیاں بیت گئیں۔ جی ہاں، جو کام صدیوں میں ہوتا ہے، نریندر مودی نے وہ کام محض آٹھ سالوں میں سر انجام دے دیا۔ ہم اور آپ بس ہندوستان میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، جوان ہوئے اور اب بڑھاپے کو لگ گئے۔ ان آٹھ برسوں میں وہ ہندوستان ختم ہو گیا۔ اب ہم جس ہندوستان مین جی رہے وہ رنگا رنگ تہذیبوں، زبانوں، کلچر کا ہندوستان نہیں ہے۔ بقول نریندر مودی یہ ’نو ہندوستان‘ ہے جو سَنگھ کے خوابوں کا ہندو راشٹر ہے۔ اب یہاں ہندوتوا کا بول بالا ہے۔ باقی سب بس محض دکھاوا ہے۔ آئین بھلے ہی ابھی سیکولر لفظ کے ساتھ اس ملک کو جوڑتی ہو، لیکن سچ یہ ہے کہ عملی طور پر ہندوستان ایک ہندو راشٹر بن چکا ہے۔ نریندر مودی کی ان آٹھ برسوں میں یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ آج یہاں ہندو-ہندو ہو رہا ہے اور باقی سب کنارے۔

لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مودی کے ہندو راشٹر میں ہندو اکثریت خوش ہے۔ بظاہر پچھلے آٹھ برسوں میں ہونے والے چناوی نتائج اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ عام ہندو خوش ہی نہیں بلکہ مودی کو اپنا ’ہردے سمراٹ‘ سمجھتا ہے۔ لیکن کیا زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ ہندو کو مودی کی حکومت میں چین و سکون اور ترقی نصیب ہے۔ سنگھ کا ہندو راشٹر منووادی اصولوں کا ہندوستان ہے۔ منوواد کے اصولوں کے مطابق پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ دراصل ہندو کون ہے۔ منو کا دور وہ دور تھا جب اس ملک میں کہیں کوئی مسلمان تھا ہی نہیں۔ اس وقت تک اس کرہ عرض پر اسلام بھی نہیں تھا۔ منو کے وقت میں اس ملک میں محض دو قومیں تھیں۔ ایک وہ آرین قوم جو گوری تھی اور باہر سے آئی تھی۔ اور دوسری یہاں کے آبائی باشندے جو زیادہ تر دراوڑ یا کالے تھے۔ جیسا کہ اس وقت دنیا کا رواج تھا، فاتح آرین نے یہاں کے آبائی باشندوں کو اپنا غلام بنایا جو زیادہ تر ’شودر‘ یعنی نچلی ذات والے کہلائے۔ پھر انھوں نے اس ملک میں ذات پات کا نظام قائم کیا۔ فاتح آرین اعلیٰ ذات کے لوگ ہوئے، جب کہ یہاں کے آبائی باشندے پسماندہ اور شودر ذات والے ہو گئے۔ ایک لمبے عرصے تک اس ملک میں ہندو کو ہندو نہیں بلکہ سناتن دھرمی کہا جاتا تھا جو آریائی اعلیٰ ذات کے لوگ تھے۔ ہندو کا لفظ ایرانیوں اور عربوں نے اس ملک میں رہنے والوں کو دیا۔ الغرض نچلی ذاتوں کے افراد کا شمار لمبے عرصے سے سناتن دھرم میں نہیں ہوتا تھا۔ تب ہی تو ان کو ہندو مذہب کی کتابیں پڑھنا اور مندروں میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس ملک مین آخرش اسلام آیا اور پھر اس کے بعد ہندو-مسلم کا تصور پیدا ہوا۔ لیکن پھر بھی بلکہ آج تک وہ آریائی ذاتوں کا سماجی نظام برقرار ہے۔


الغرض منو اصولوں کے مطابق اصل ہندو اعلیٰ ذات کے آریائی نسل کے افراد ہیں جب کہ پسماندہ اور دلت ذات کے افراد کم از کم اس ملک میں اسلام آنے سے قبل تک ہندو ہی نہیں تھے۔ ان کو ذات کے اعتبار سے اعلیٰ ذاتوں سے کمتر سمجھا جاتا تھا اور آج بھی یہی سچ ہے۔ سَنگھ کے ہندو راشٹر میں انہی اعلیٰ ذاتوں کو فوقیت ہونی چاہیے۔ اگر آپ مودی کے پچھلے آٹھ سالوں کا تجزیہ کریں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ اس ملک میں مسلمان کیا بلکہ پسماندہ اور دلتوں کی حیثیت بھی کم و بیش دوسرے درجے کی ہے۔ اب اس سیاسی اور سماجی پس منظر میں ہندوستان کی سیاست کا پچھلے تین برسوں میں تجزیہ کیجیے۔ سن 1990 میں وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن سفارشات لاگو کر ملک کی سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں پسماندہ ذاتوں کے لیے 27 فیصد ریزرویشن لاگو کر دیے۔ بس اسی کے ساتھ ملک میں سماجی انصاف کا ڈنکا بج اٹھا۔ سماجی انصاف یعنی ہندو سماج میں ذات کی بنا پر صدیوں سے پسماندہ اور دلتوں کے ساتھ جو سماجی ناانصافی ہو رہی ہے وہ کتم ہو۔ اس سیاست نے ملک میں پسماندہ ذاتوں، دلتوں اور مسلمانوں کو سن 1990 کے بعد یکجا کر دیا۔ پھر سماجی انصاف نے صدیوں پرانے آریائی ذات پات کے نظام کی چولیں ہلا دیں۔ ملک کی سیاست میں گویا ایک انقلاب بپا ہو گیا۔ اتر پردیش اور بہار جیسے سب سے اہم صوبوں میں پسماندہ اور دلتوں کا راج قائم ہو گیا۔ ملائ، لالو، مایاوتی، اکھلیش جیسے پسماندہ ذاتوں اور دلتوں کے نمائندے برسراقتدار آ گئے۔ یہ گویا ایک انقلاب تھا۔ یوپی اور بہار جیسے اہم صوبے اعلیٰ ذاتوں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ تقریباً 30 برس تک یہی صورت حال رہی۔

اب ذرا ملک میں سن 2014 میں مودی کے عروج کے بعد ان صوبوں کا سیاسی و سماجی پس منظر دیکھیے۔ اتر پردیش میں ٹھاکر آدتیہ ناتھ کا راج ہے۔ پسماندہ ذاتوں کے ہاتھوں سے اقتدار نکل چکا ہے۔ بہار میں گو اب بھی نتیش کمار وزیر اعلیٰ ہیں، لیکن وہاں اسمبلی میں بی جے پی کی اکثریت ہونے کی وجہ سے نتیش محض ایک کٹھ پتلی ہو گئے ہیں۔ لالو جیل کاٹ رہے ہیں۔ اقتدار پسماندہ ذاتوں کے ہاتھوں سے نکل کر پھر اعلیٰ ذاتوں کے پاس چلا گیا ہے۔ لب لباب یہ کہ مودی نے سن 2014 سے اب تک یوپی اور بہار جیسے اہم صوبوں میں پسماندہ اور دلت ذاتوں کو حاشیے پر پہنچا دیا ہے۔ یعنی ان صوبوں میں پھر منووادی سماجی نظام لاگو ہو چکا ہے۔ اور یہی سَنگھ کے ہندو راشٹر کی پہلی شرط ہے۔


ہندو راشٹر کی دوسری اہم پہچان یہ ہے کہ اس نظام میں ہندو عقائد اور مذہب کو ملک کے باقی دوسرے عقائد پر فوقیت ہو اور ملک کا کلچر قدیمی ہندو کلچر کے رنگ میں ڈوبا ہو۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ایودھیا میں بابری مسجد گرا کر رام مندر کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ متھرا اور کاشی کی مساجد بھی کب گرا دی جائے اس کا کوئی بھروسہ نہیں۔ مسلمان کی اذان، نماز اور مسجد اب ہر وقت خطرے میں ہے۔ گو پوجا اور طرح طرح کی دھام یاتراؤں نے ملک میں قدیمی ہندو کلچر کو ہوا دی ہوئی ہے۔ کشمیر کی سے دفعہ 370 ختم کر وہاں ایک ہندو وزیر اعلیٰ کو برسراقتدار لانے کی تیاری ہے۔ یعنی ملک میں واحد مسلم اکثریتی ریاست بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے جا چکی ہے۔ بس ملک میں ہندوتوا کا ڈنکا ہے جو سَنگھ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ ہندو راشٹر کی تیسری سب سے بڑی علامت ملک مین رہ رہے مسلمانوں کی دوسری درجے کی حیثیت ہے۔ مسلم ووٹ بینک کا دبدبہ ختم ہو چکا ہے۔ لنچنگ سے لے کر اذان و نماز پر تلوار لٹک رہی ہے۔ ملک کے تمام سیاسی و سماجی معاملات میں مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں بچی ہے۔ یہ ہندو راشٹر کی اہم ترین علامت ہے۔

الغرض مودی کے آٹھ سالوں مین سنگھ کا ہندو راشٹر تیار ہے۔ لیکن یہ ہندو راشٹر معاشی اعتبار سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ ملک میں بے روزگاری کا سیلاب ہے۔ حکومت اس قدر کنگال ہو چکی ہے کہ وہ ایئر انڈیا اور ایل آئی سی جیسی کمپنیوں کو بیچ کر اپنا خرچ چلا رہی ہے۔ کووڈ میں کروڑوں کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ کروڑوں افراد بے روزگار ہو گئے۔ اس نکتہ نگاہ سے اگر پچھلے آٹھ سالوں کا تجربہ کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ مودی کے ہندو راشٹر میں سب سے زیادہ خود ہندو خسارے میں ہے۔ وہ پسماندہ اور دلت ذاتیں جو ہندو سماج کی اکثریت ہیں اس کے ہاتھوں سے اقتدار نکل چکا ہے۔ ملک میں بے روزگاری سے سب سے زیادہ ہندو نوجوان حیران و پریشان ہیں۔ کورونا وبا کے دوران جو کام دھندے بند ہوئے، وہ بھی سب سے زیادہ ہندوؤں کے ہی تھے۔ ملک کا مسلمان تو سڑکوں کے کنارے ریہڑی اور خونچا لگا کر زندگی گزارا کرتا تھا، یا اپنے ہنر سے دو وقت کی روٹی کماتا تھا۔ آج بھی وہ وہی کر رہا ہے۔ جب کہ کثیر ہندو آبادی ملک کی معاشی بدحالی سے بے حال ہے۔ لیکن وہ مسلم منافرت کے نشے میں مودی کو ووٹ ڈالے جا رہی ہے۔ جب بھی مسلم دشمنی کا نشہ ہرن ہوا تو بس ملک کے حالات سری لنکا جیسے ہو سکتے ہیں۔ ہاں، مودی کا کمال یہی ہے کہ وہ اس نشہ کو کسی طرح ٹوٹنے نہیں دیتے ہیں۔ لیکن ایک دن تو آنا ہی ہے کہ جب نشہ ہرن ہوگا۔ بس وہ دن ہندو سماج کے لیے قیامت کا دن ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 May 2022, 10:11 AM