ڈاکٹر شارب ردولوی، اردو تنقید کی قد آور شخصیت... جمال عباس فہمی

شارب ردولوی نے دو درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف اور ترتیب دی ہیں، خود ان کی ادبی خدمات اور شخصیت پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں۔

شارب ردولوی
شارب ردولوی
user

جمال عباس فہمی

ڈاکٹر شارب ردولوی کا نام اردو تنقید میں بڑے ادب سے لیا جاتا ہے۔ جدید اردو تنقید کے حوالے سے شارب ردولوی کی ایک کتاب کی افادیت اور مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے اب تک آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ شارب ردولوی نے اردو ادب کے مختلف موضوعات پر کام کیا ہے لیکن ان کا اصل میدان عمل تنقید ہی رہا ہے۔ 2021 میں منظر عام پر آئی ان کی خود نوشت 'نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم' کئی حوالوں سے بہت اہم اور تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ اس سے اردو ادب کی کچھ بڑی قد آور شخصیتوں کی پست ذہنیت بھی آشکار ہوتی ہے۔ اردو ادب کی یہ بڑی شخصیات اپنے تسلط اور اجارہ داری کی برقراری کے لئے ان ہی لوگوں کی ترقی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں جن کا ہمدرد اور دوست ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ دو درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف اور مرتب ڈاکٹر شارب ردولوی کی ادبی خدمات پر تفصیل سے نظر ڈالنے سے پہلے ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور خاندانی پس منظر کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

شارب ردولوی کا اصل نام مسیب عباس ہے۔ یکم ستمبر 1935 کو پیدا ہونے والے شارب ردولوی نے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔ ان کا وطن ردولی ہے جسے بہت سے صوفیا نے تعلیمات اور روحانی تربیت کا مرکز بنایا۔ ۔لکھنؤ اور فیض آباد دونوں سے قربت نے ردولی کو ایک تہذیبی مرکز بنا دیا۔ ایک دور تھا جب ردولی کے گھر گھر میں علم و ادب کا چرچہ تھا۔ شارب ردولوی کا تعلق ایک زمیں دار گھرانے سے ہے۔ ان کے دادا غلام حسنین اور والد حسن عباس حاذق طبیب و حکیم تھے۔ دادا تو طب کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ جہاں تک خاندان کا تعلق ہے تو شارب ردولوی قاضیان سلطان پور کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے مورث اعلی علی بلند دستار افغانستان کے صوبے بلخ سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے دور کے بڑے عالم اور صوفی بزرگ تھے۔ 1193 عیسوی میں بلخ سے ہجرت کرکے اپنے چار بیٹوں کے ساتھ ہندوستان آگئے تھے۔


شارب ردولوی کے جد حسن محمود کو سلطان محمد غوری نے 595 ہجری میں قاضی القضات مقرر کیا تھا۔ سن626 ہجری بمطابق 1230 عیسوی میں غوری بادشاہ التمش نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے حسن محمود اور ان کے بھائی محمد حسن کی با ترتیب سلطان پور اور جائس کے قاضی کی حیثیت سے تقرری کی تجدید کی تھی۔ قاضی القضات علاقے کا حاکم ہوتا تھا اور تمام عہدیدار اس کے ماتحت ہوتے تھے۔ شارب ردولوی کے اجداد یعنی قاضیان سلطان پور مجاہدین آزادی بھی رہے۔ انگریز حکومت کے خلاف پہلی جنگ آزادی میں انہوں نے بیگم حضرت محل کا ساتھ دیا تھا جس کی پاداش میں ان کے گھر کو توپ سے اڑا دیا گیا۔ ان کی جائدادیں ضبط کر لی گئیں۔ قاضیان سلطان پور کی ایک اہم فرد وزیر علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ دوران مقدمہ جیل میں ہی ان کی موت ہوئی۔ حالات کے دگرگوں ہونے کے سبب قاضی وزیر علی کی اولادیں اپنی ننیہال ردولی آگئی تھیں۔

شارب ردولوی کی ماں کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب وہ محض دو ڈھائی برس کے تھے۔ ماں کی بیماری کے سبب شارب ردولوی کمسنی کے دوران بھی ماں کی شفقت سے محروم رہے۔ دادا دادی اور پھوپیوں کے زیر سایہ ان کی پرورش ہوئی۔ دادا غلام حسنین حاذق طبیب ہونے کے ساتھ نہایت اعلیٰ ادبی زوق رکھتے تھے۔ ان کا کتب خانہ نادر و نایاب کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ شارب ردولی کا ادبی ذوق اور کتابیں پڑھنے کا شوق ان کے دادا کا مرہون منت ہے۔


بچپن سے لے کر شارب ردولوی کی زندگی کشاکش، جذباتی صدمات، قریبی لوگوں کی بے مروتی اور محبت کرنے والوں کی جدائی سے عبارت رہی ہے۔ بچپن میں ماں کی شفقت سے محروم ہوئے۔ باپ کی ملازمت کے سبب بچپن میں تعلیمی دربدری کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی بہن کے پاس ہاتھرس میں رہے تو کبھی پھوپی کے پاس سلطان پور میں تو کبھی بڑے بھائی اور چچا کے پاس الہ آباد میں، تو کبھی بہن کے پاس کانپور میں تو کبھی خالہ کے پاس ردولی میں۔ 1956 میں بی اے آنرس کیا۔ 1957 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1965 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1961 میں دہلی یونیورسٹی کے دیال سنگھ کالج میں بحیثیت لیکچرار تقرر ہوا۔ ڈیپیوٹیشن پر وزارت تعلیم کے ادارے ترقی اردو بیورو میں پرنسپل پبلی کیشن افسر رہے۔ بعض ساتھیوں کے رویہ کے سبب استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔

1979 میں دیال سنگھ کالج میں پھر واپسی ہوئی اور سینیر لیکچرار ہو گئے۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ریڈر رہے۔ 1993 سے لے کر 2000 میں ریٹائرمنٹ تک جے این یو کے سینٹر آف انڈین لینگویجیز(ہندستانی زبانوں کے مرکز) سے وابستہ رہے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ بعض تسلط پسند ادبی ہستیوں کی اڑنگے بازی کے سبب شارب ردولوی کسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ کے عہدے تک نہیں پہنچ سکے، اردو ادب کی شان سمجھی جانے والی شخصیتوں پروفیسر محمد حسن، پروفیسرگوپی چند نارنگ اور پروفیسر قمر رئیس سے شارب ردولوی کے بہت اچھے مراسم رہے لیکن ان ہی شخصیات نے شارب ردولوی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ پروفیسر قمر رئیس اور گوپی چند نارنگ نے الگ الگ موقعوں پر جامعہ ملیہ میں ان کے تقرر کی مخالفت کی، تو پروفیسر محمد حسن نے دہلی یونیورسٹی میں ان کے تقرر کی مخالفت کی۔


شارب ردولوی کو دو بہت بڑے صدموں سے گزرنا پڑا۔ 25 مئی 1995 کو ان کی اکلوتی بیٹی شعاع فاطمہ کا محض 21 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا اور 28ستمبر2017 کو ان کی اہلیہ پروفیسر شمیم نکہت انہیں داغ مفارقت دے گئیں۔ 22 برس کے عرصے میں شارب ردولوی اپنی عزیز ترین بیٹی اور اپنی غمگسار شریک حیات سے محروم ہو گئے۔ شارب ردولوی نے ساٹھ برس کی عمر میں اکیس سالہ بیٹی کا داغ اٹھایا اور 82 برس کی عمر میں اہلیہ شمیم نکہت کی جدائی کا غم برداشت کیا۔ شعاع فاطمہ کی یاد میں شارب ردولوی اور شمیم نکہت نے لڑکیوں کا ایک اسکول قائم کیا تھا جو ترقی کرکے اب انٹر کالج بن گیا ہے۔ اب شارب ردولوی کی زندگی کا مقصد شعاع فاطمہ گرلز انٹر کالج کی ترقی اور اردو ادب کی خدمت ہے۔ بیٹی اور اہلیہ سے جدائی کا غم برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ شارب ردولوی کی قلمی کاوشیں بھی جاری ہیں۔

2017 میں مضامین کے مجموعے 'تنقیدی عمل' کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ 2018 میں 'ترقی پسند شعری فکر اور اردو شعرا' کے عنوان سے کتاب تحریر کی۔ 2018 میں ہی 'جگر فن اور شخصیت' کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ 2021 میں 'نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم' کے عنوان سے خود نوشت تحریر کی۔ شارب ردولوی کی خود نوشت ان کی روداد زندگی اور زندگی کے نشیب و فراز کو تو بیان کرتی ہی ہے۔ معروف ادبی ہستیوں کی تعلیمی اداروں پر تسلط اور اجارہ داری برقرار رکھنے کی تگ و دو، ادیبوں کی باہمی چپقلش اور مستحق افراد کو ترقی کے مواقع سے محروم رکھنے کی سازشوں پر سے بھی پردے ہٹاتی ہے۔


شارب ردولوی کی پہلی قلمی کاوش 'مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر تھی' جو 1959 میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت شارب ردولوی کی عمر محض 24 برس تھی۔ 1968 میں انہوں نے 'جدید اردو تنقید، اصول و نظریات' تحریر کی تھی۔ یہ کتاب جدید اردو تنقید کے حوالے سے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کی افادیت اور مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ امر کافی ہے کہ اب تک اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تنقید کے حوالے سے شارب ردولوی کی 'تنقیدی عمل' (مضامین کا مجموعہ) 'تنقیدی مباحث' (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید (مرتب) تنقیدی مطالعے (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) اور معاصر اردو تنقید (مرتب) بہت اہم ہیں۔

شارب ردولوی نے دو درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف اور ترتیب دی ہیں، خود ان کی ادبی خدمات اور شخصیت پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر عرشیہ جبیں نے 'شارب ردولوی شخصت اور تنقید نگاری' کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ رانچی یونیورسٹی کے اسکالر حسن مثنیٰ، جے این یو کے شاہد رضی اور ڈاکٹر ریحان حسن نے شارب ردولوی کی ادبی خدمات پر تحقیقی مقالے تحریر کئے ہیں۔ پاکستان کی سرگودھا یونیورسٹی کی رضوانہ صفدر نے 'شارب ردولوی کی تنقیدی جہات' کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔


مخلتلف اکیڈمیاں شارب ردولوی کی ادبی خدمات کا اعتراف کر چکی ہیں۔ انہیں دہلی اردو اکیڈمی 'کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ' اتر پردیش حکومت 'یش بھارتی ایوارڈ' مغربی بنگال اردو اکیڈمی' نیشنل ایوارڈ، ایوان غالب' غالب ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید' اور اتر پردیش اردو اکیڈمی اپنے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ 'مولانا ابولکلام آزاد ایوارڈ' سے نواز چکی ہے۔ 87 برس کی عمر میں بھی شارب ردولوی ادبی طور پر سرگرم ہیں۔ 'افسانہ سماج سے علامت تک' کے عنوان سے کتاب ان کے زیر قلم ہے۔ آئندہ 25 مئی کو شارب ردولوی کا ایک بڑا غم تازہ ہو جائے گا۔ اس روز ان کی بیٹی شعاع فاطمہ کی 27ویں برسی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ شارب ردولوی صحت کے ساتھ سلامت رہیں اور اردو ادب کی اسی گرمجوشی کے ساتھ خدمت کرتے رہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔