مرزا غالب: ہر خاص و عام میں مقبول شاعر...برسی کے موقع پر خصوصی پیشکش

آج مرزا اسد اللہ خاں کی برسی ہے، جو جہانِ سخن میں غالبؔ کے تخلص سے مشہور ہوئے۔ وہ 27 دسمبر 1797 آگرہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 15 فروری 1869 کو دہلی میں وفات پائی

مرزا غالب / تصویر بشکریہ ڈان ڈاٹ کام
مرزا غالب / تصویر بشکریہ ڈان ڈاٹ کام
user

قومی آوازبیورو

آج مرزا اسد اللہ خاں کی برسی ہے، جو جہانِ سخن میں غالبؔ کے تخلص سے مشہور ہوئے۔ وہ 27 دسمبر 1797 آگرہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 15 فروری 1869 کو دہلی میں وفات پائی۔ اس فلسفی شاعر کو دنیا سے رخصت ہوئے 154 سال ہو گئے ہیں لیکن جو شہرت اس فلسفی شاعر کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکی۔ اردو اور فارسی زبان کے اس شاعر نے نثر میں بھی اپنا کمال دکھایا اور ان کے دوستوں اور شاگردوں کے نام خطوط اور مراسلت بہت مشہور ہے۔ اسی طرح غالب کی بذلہ سنجی اور ان کی ظرافت سے متعلق کئی قصّے اور لطائف بھی ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔

غالب کے آباء و اجداد کا پیشہ سپہ گری تھا۔ وہ 13 برس کے تھے جب دہلی کے ایک خاندان میں شادی کے بعد اسی شہر کے ہو رہے۔ مے نوش اور یار باش غالب نے تنگ دستی دیکھی۔ اولاد سے محروم رہے۔ 1855 میں استاد ذوق دنیا سے گئے تو مرزا غالب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں استاد مقرر ہوئے۔ دربار سے نجم الدولہ، دبیرُ الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔


غالب نے سہل ممتنع اور سادہ و رواں بحروں میں مضامین کو اس خوبی اور عمدگی سے باندھا کہ آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہیں۔ غالب نے شاعری کے ساتھ نثر نگاری میں نئے ڈھب اور اسلوب کو متعارف کروایا۔ ان کے خطوط ان کی نثر نگاری کا عمدہ نمونہ اور مثال ہیں۔

ان کی مشہور غزل:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

کہاں مے خانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے


غالب کی ایک اور معروف غزل:

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا!

اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

یہ مسائلِ تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔