معروف افسانہ نگار خورشید حیات ’مولانا عبد الرؤوف محوی ایوارڈ‘ سے سرفراز، اردو ادب کی اہم شخصیات کا اظہار تہنیت

گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ اردو اکادمی نے سال دو ہزار اکیس کا مجاہد اردو مولانا عبد الرؤوف محوی ایوارڈ دینے کے لئے خورشید حیات کو منتخب کیا ہے، اس کا اعلان ایوارڈ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔

معروف افسانہ نگار خورشید حیات / یو این آئی
معروف افسانہ نگار خورشید حیات / یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: مشہور و معروف افسانہ، ناول اور تنققید نگار خورشید حیات کو اردو زبان و ادب میں ناقابل فراموش خدمات انجام دینے کے لئے چھتیس گڑھ اردو اکادمی کے سال دو ہزار اکیس کا ’مجاہد اردو مولانا عبد الرؤوف محوی ایوارڈ‘ دینے پر اردو کے مشہور ناول نگار اور ساہتیہ اکیڈمی ایواڈ یافتہ حسین الحق، معروف ادیب نورالحسنین اور مشہور نقاد حقانی القاسمی نے مبارکباد پیش کیا ہے۔

انہوں نے ایوارڈ ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوارڈ خورشید حیات کے اردو کے تئیں خدمات کا اعتراف ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ آئندہ بھی اردو کی خدت پوری تندہی کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ مشہور نقاد حقانی القاسمی نے خورشید حیات کو مبارکباد اور ان کی تنقیدی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ”خورشید حیات تخلیقی اور تنقیدی امتزاج سے نئے ادب کی تختیاں تحریر کر رہے ہیں۔ ان کی محنتوں سے بہت سی گمنام اور فراموش کردہ شخصیتوں کے چہرے بھی روشن ہیں۔ اجاڑ اور ویران علاقوں کو بھی اپنے لفظوں سے آباد کر رہے ہیں۔


واضح رہے کہ گزشتہ دنوں چھتیس گڑھ اردو اکادمی نے سال دو ہزار اکیس کا مجاہد اردو مولانا عبد الرؤوف محوی ایوارڈ دینے کے لئے خورشید حیات کو منتخب کیا ہے، اس کا اعلان ایوارڈ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ چھتیس گڑھ اردو اکادمی کا یہ ایوارڈ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد، نہایت اعزاز کے ساتھ ایک اہم تقریب میں دیا جائے گا۔

خوریشد حیات برسوں سے بڑی تندہی اور خلوص کے ساتھ اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ بحیثیت افسانہ نگار اور نقاد پورے بر صغیر میں خورشید حیات کے ادبی کاموں کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے افسانے ملک و بیرون ملک کے نہایت موقر رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کئی کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک تنقیدی کتاب ”لفظ تم بولتے کیوں ہو؟“ منظر عام پر آئی جس پر مبصرین و ناقدین نے خوب تجزیاتی مقالات لکھے۔


خورشید حیات 28 نومبر 1960 میں رانچی میں پیدا ہوئے اور حال ہی میں وہ ریلوے سے چیف کنٹرول کوچنگ، ساؤتھ ایسٹ سنٹرل ریلوے بلاسپور سے سبکدوس ہوئے ہیں۔ ان کی پہلی کہانی ’انوکھی تبدیلی‘ 1974میں شائع ہوئی تھی۔ ان کا افسانوی مجموعہ اردو ایڈز 2000 میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ہندی میں ان کا افسانوی مجموعہ ’سورج ابھی جاگ رہا ہے‘ 2004 میں شائع ہوا ہے۔ ان کی تخلیقی تنقید ’لفظ تم بولتے کیوں ہو‘ 2017 میں شائع ہوا۔ اسی کے ساتھ کا ناول ’عورت سمندر سڑک‘ شائع ہوا ہے۔ ’انوکھی تبدیلی‘ ہندی کہانی کا مجموعہ بھی شائع ہوا ہے۔

خورشید حیات درجنوں ایوارڈ کے علاوہ ’قاضی عبدالودود ایوارڈ‘ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ ان کے ایوارڈ میں چھتیس گڑھ اردو اکادمی سال دو ہزار اکیس کا مجاہد اردو مولانا عبد الرؤوف محوی ایوارڈ ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں ادبی رسائل و جرائد نے خورشید حیات پر گوشے شائع کیے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں مبارکباد دینے والوں میں رضیہ حیدر خان، احمد نثار، شاہین کاظمی، نصرت اعوان، ڈاکٹر امام اعظم، پرویز مظفر، مہر افروز، شیخ نگینوی، پروفیسر حبیب نثار، اقبال مسعود، پروفیسر شہاب ظفر اعظمی، عشرت ظہیر، ڈاکٹر صادقہ نواب سحر، افشاں رضا، شبینہ فرشوری، ڈاکٹر عبد الحی خان، ڈاکٹر ارشاد سیانوی، ڈاکٹر ریاض توحیدی، مسرور حیدری، عصمت آرا، ڈاکٹر عشرت ناہید، ایس ایم یحیٰ ابراہیم، رخشندہ روحی مہدی، رفیع حیدر انجم، منجل جین، مٹاچرن مشرا، وکرم سنگھ، ڈاکٹر پریمی رومانی، ڈاکٹر عالیہ کوثر، سلمان باسط، ستیش جیاسوال، چندر بھان خیال، راکیش بھیا، حنیف قمر، سنیتا ورما، حاجی انصار، ڈاکٹر اعجاز احمد میر، عاصم اسعدی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */