بیانیہ اسلوب کا افسانہ نگار ایم اے کنول جعفری

کنول جعفری نے افسانہ نگاری کے لئے بیانیہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ بیانیہ اسلوب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ڈائلاگ لگ بھگ نہیں کے برابر ہوتے ہیں۔ جو کچھ کہا جاتا ہے افسانے کے کردار کی زبانی کہا جاتا ہے۔

کنول جعفری
کنول جعفری
user

جمال عباس فہمی

صبح کا بھولا اگرشام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ یہ کہاوت افسانہ نگاری کی دنیا میں ایم اے کنول جعفری کے نام سے معروف قلمکار پر صادق آتی ہے۔ کنول جعفری کی چالیس سال بعد گھر واپسی ہوئی اور بڑے طمطراق کے ساتھ ہوئی۔ 2019 اور 2021 کے دوران ان کے دو افسانوی اور ایک شعری مجموعہ منظر عام پر آگئے۔ ہندی صحافت میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد کنول جعفری کو ایک قلمکار کے طور پر اردو کے تئیں اپنا فرض ادا کرنے کا خیال آیا اور انہوں نے افسانہ نگاری کا از سر نو آغاز کیا۔ بعض نا گزیر اسباب کے بموجب 1975 میں ان کا افسانہ نگاری کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا، 2015 میں انہوں نے پھر سے اس کا آغاز کیا۔ چالیس برس بعد پھر سے اردو دب کی خدمت کے فریضے کی ادائیگی شروع کرنے والے ایم اے کنول جعفری بھلا ہیں کون۔ کہاں سے ان کا تعلق ہے۔ ان کا خاندانی اور تعلیمی پس منظر کیا ہے۔ آئیے پہلے اس بارے میں معلوم کئے لیتے ہیں۔

ضلع بجنور کی ایک تحصیل ہے دھامپور۔ اسی تحصیل دھامپور کا ایک قصبہ ہے جس کا بڑا عجیب سا نام ہے نیند ڑو۔ 'نیند ڑو' دھامپور سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر بسا ہے۔ یہ مسلم اکثریتی قصبہ ہے۔ اسی قصبہ میں عبد الصمد کا تعلیم یافتہ گھرانہ مقیم ہے۔


عبد الصمد کے گھر میں 2 جنوری 1952 کو ایک فرزند کی ولادت ہوئی۔ والدین نے نام رکھا محبوب احمد۔ پانچ برس کی عمر میں جامع مسجد کے مدرسے سے تعلیمی سلسلہ شروع ہوا۔ 1962 میں چھٹے درجہ کی تعلیم مکمل کی۔ 1965 میں مڈل 1968 میں ہائی اسکول اور1970 میں انٹر کا امتحان پاس کرلیا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ معاشی تنگی نے محبوب احمد کی مزید حصول تعلیم کی راہیں مسدود کر دیں۔ گھریلو ماحول تعلیمی اور خاصا ادبی تھا۔ بیشتر افراد سرکاری ملازم تھے۔ کئی قریبی رشتے دار درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ تھے۔ کچھ قریبی عزیز شعر گوئی کے شوقین تھے۔ ایک تایا زاد بھائی کتب بینی کے اتنے شوقین تھے کہ انہوں نے علاقے میں باقاعدہ ایک اردو لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ خاندان میں کچھ افراد کو شمع میگزین کے معمے بھرنے کا بھی شوق تھا۔ جب محبوب احمد کو ایسا تعلیمی اور ادبی ماحول میسر ہوا تو ان کا ادب کی جانب مائل ہونا باعث تعجب تو ہرگز نہیں تھا۔ چنانچہ کنول تخلص کے تحت شاعری شروع کردی۔ معروف ادیب اور مدیر نشتر خانقاہی کی ادارت میں بجنور سے ہفت روزہ اخبار 'حرارت' شائع ہوتا تھا 'حرارت' میں کنول نیند ڑوی کے تین اشعار شائع ہوئے۔ یہ بات ہے 1971 کی ہے۔ اس کے بعد محبوب احمد نے طبیعت میں افسانہ نگاری کی حرارت محسوس کی تو پہلا افسانہ 'طوفاں طوفاں ساحل ساحل' لکھا۔ یہ بات ہے 1973 کی، اس طرح کنول جعفری کی شاعری ان کی نثر نگاری سے عمر میں دو برس بڑی ہے۔

اس دوران وہ 'منکوا' کے مقام پر ایک سرکاری اسکول سے اسسٹنٹ ٹیچر کی حیثیت سے وابستہ ہو گئے۔ اس دوران ہندی کے مختلف اخبارات و رسائل سے بحیثیت نامہ نگار منسلک ہوگئے۔ ہندی اخبارات کے لئے نامہ نگاری اور مضمون نگاری کرتے کرتے محبوب احمد اردو سے کتنی دور چلے گئے اس کا اندازہ انہیں خود بھی نہ ہوسکا۔ اس دوران محبوب احمد نے اپنی تعلیمی لیاقت میں اضافہ کیا۔ 1977 میں گریجویشن 1979 میں اردو میں ایم اے 1986 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ لگے ہاتھوں صحافت کا کورس بھی کرلیا۔ درس و تدریس اور نامہ نگاری کا سلسلہ لگاتار جاری رہا۔


جون 2012 میں ٹیچر کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ 2015 کا ابتدائی زمانہ تھا جب محبوب احمد کنول جعفری کو اردو ادب کی حرارت محسوس ہوئی اور یہ خیال آیا کہ قلمکار ہوتے ہوئے بھی وہ اردو ادب کی خدمت سے محروم ہیں۔ اس خیال نے احساس ندامت کی شکل اختیار کرلی اور اس نے ضمیر کو کچوکے لگانے شروع کر دیئے، انہوں نے غیر ارادی طور سے ہی سہی اردو ادب کا تو نہیں بلکہ اپنا ذاتی ادبی نقصان کیا ہے۔ اس ادبی نقصان کی تلافی کے لئے محبوب احمد کنول ایم اے کنول جعفری کے قلمی نام سے ادب تخلیق کرنے کے لئے میدان میں آگئے۔ اس طرح چالیس برس کے طویل وقفے کے بعد ایم اے کنول جعفری نے ادب کی دوسری پاری کا آغاز کیا۔ دوسری پاری کی پہلی تخلیق 'فرسودہ رواجوں کا درد' کی صورت میں وارد ہوئی۔ 2019 میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ترتیب دیکر شائع کر دیا۔ 'چاک کا بوسیدہ ٹکڑا' کے عنوان کا یہ افسانوی مجموعہ 20 افسانوں پر مشتمل ہے، 2021 میں کنول جعفری کی دو کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ایک افسانوی مجموعہ 'خاموش لب' اور شعری مجموعہ 'سیپیاں ٹوٹی ہوئی'۔ کنول جعفری کی تینوں کتابیں ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔

کنول جعفری نے افسانہ نگاری کے لئے بیانیہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ بیانیہ اسلوب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ڈائلاگ لگ بھگ نہیں کے برابر ہوتے ہیں۔ جو کچھ کہا جاتا ہے افسانے کے کردار کی زبانی کہا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں کرداروں کی بھرمار نہیں ہوتی۔ اکا دکا کردار کے ارد گرد پورے افسانے کا تانا بانا ہوتا ہے۔ موضوعات اور پیغام رسانی کے لحاظ سے کنول جعفری کے افسانے خاص نوعیت کے حامل ہیں۔ موضوعات وہ ہیں جو ہمارے آس پاس بکھرے ہوئے ہیں۔ فرقہ وارانہ منافرت، رشتوں کی نا قدری۔ انسانی اقدار کا ذوال۔ اخلاقیات کا فقدان، موقع پرستی، مصلحت پسندی۔ سیاسی بازیگری۔ اخلاقی پستی، کردار کا دیوالیہ پن وغیرہ وغیرہ۔ کنول جعفری کے افسانے کوئی نہ کوئی پیغام ضرور دیتے ہیں۔ کردار سازی کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں۔ ذہن و دل کی گرہیں بھی کھولتے ہیں۔ انسانی قدروں کا وقار بحال کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ان کے افسانے کوری جذباتیت اور عریانیت سے پاک ہیں۔ ان کے افسانے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق ضرور چھوڑتے ہیں۔ کنول جعفری کے افسانوں میں جذبہ انسانیت کا پہلو درخشاں رہتا ہے۔ کنول جعفری کے افسانے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ انسانیت کا وقار بحال کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ 'تسکین کے چند لمحات' نامی افسانے میں قلمکار متکلم کے طور پر موجود ہے۔ کہانی کا کردار پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ وہ خود کو اپنی ماں کی موت کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ افسانے کا ایک اقتباس کچھ اس طرح ہے۔


’’میں اپنی ممی کا قاتل ہوں۔ جلدی لوٹ آتا تو کیا بگڑ جاتا۔ وقت پر دوا مل جاتی تو شاید وہ بچ جاتیں۔ لیکن میں میں جلدی گھر کیوں آجاتا۔ مجھے تو سدا اپنے دوستوں میں دلچسپی رہی۔ کم پڑھے لکھے، بیکار نٹھلے کام چور اور خود غرض قسم کے دوست جو شام ہوتے ہی میڈیکل اسٹور پر آدھمکتے تھے۔''

جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ایم اے کنول کا انداز یہاں بھی وہی ہے جو کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ ان کا شعری اسلوب بھی نہایت سادہ اور شفاف ہے۔ شاعری میں بھی کنول جعفری کے وہی موضوعات ہیں جو ان کی کہانیوں کے ہیں۔ وہ افسانوں کے وسیلے سے جو اخلاقی درس دیتے ہیں ان کی شاعری بھی اخلاقی پہلو لئے ہوئے ہے۔ بطور نمونہ ان کے کچھ اشعار پیش ہیں جن سے ان کا انداز تخاطب طرز بیان اور موجودہ حالات کا عکس ظاہر ہوتا ہے۔

وقت نے بدلی یوں کروٹ بھولے خاص و عام تک

بھول سے لیتے نہیں اپنے بھی میرا نام تک

----

سامنے ہے تو ترا دیدار ہے میرا سکوں

کیا خبر آئے نہ آئے کل ترا پیغام تک

----

یہ کیسا زعم ہے کرتا نہیں شکر خدا انساں

یہ نا شکری ہی تو ہر ایک نعمت چھین لیتی ہے


بنی ہے سرخی اخبار ناروا داری

جو زہر اگلنے لگے ہر قلم تو کیا ہوگا

----

اب نہ بچوں کو رہا اپنے بزرگوں کا لحاظ

اور بوڑھے بھی تو چھوٹوں پر کرم بھول گئے

----

دیر سے جاگے تو نقصان یقینی ہوگا

ہاتھ سے قیمتی لمحات پھسل جائیں گے

----

افلاس کی صلیب پہ لٹکے ہیں کتنے لوگ

دشمن کے واسطے بھی کنول غربتیں نہ مانگ

کنول جعفری اپنے افسانوں اور شاعری کے وسیلے سے انسانی ہمدردی، فرقہ وارانہ یک جہتی اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں اور سماجی نا برابری اور معاشرتی نا انصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ کنول جعفری کی اردو ادب کی جانب چالیس سال میں رجعت اور ان کی تخلیقات کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو ادب اپنے خدمت گزاروں اور نام لیواؤں کو نہ فراموش کرتا ہے اور نہ مایوس۔ جو قلمکار اس کے دامن عافیت میں پناہ لیتے ہیں ان کو عزت و وقار بھی عطا کرتا ہے اور تاریخ میں ان کا نام سنہرے حروف میں درج بھی کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔