ندائے حق: کیا یوکرین جنگ عرب ممالک کو متحد کر سکتی ہے!... اسد مرزا

’’روس- یوکرین جنگ نے مختلف عرب ممالک کے درمیان اتحاد قائم کرنے کے علاوہ ان کو اپنی امریکی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا موقع بھی دیا ہے۔‘‘

یوکرین کی جنگ زدہ راجدھانی کیف میں روزہ افطار کرتا مسلم نوجوان / Getty Images
یوکرین کی جنگ زدہ راجدھانی کیف میں روزہ افطار کرتا مسلم نوجوان / Getty Images
user

اسد مرزا

حالیہ عرصے میں جب یوکرائن کی جنگ کے باعث تیل کی قیمتیں $130 فی بیرل سے زیادہ ہو گئی ہیں، اور روسی تیل اور گیس پر وسیع پابندیوں کے امکانات کی وجہ سے بیشتر ملک عالمی کساد بازاری کے خطرے سے دوچار ہیں، دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب سے واشنگٹن کو بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق خطے کے دو بڑے ملک یعنی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور حکمراں امریکی صدر جوبائیڈن سے براہِ راست بات چیت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

یہ ردِ عمل شخصیاتی پہلوؤں کی بنیاد پر ہے۔ صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی سعودی عرب کو ایک ناکارہ ملک قرار دیا تھا اور 2018 میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے لیے سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ پرنس سلمان اور سعودی عرب کو سبق سکھائیں گے۔ صدر بننے کے بعد بھی اخبار کے مطابق بائیڈن کی پرنس سلمان سے فون پر بات چیت یا کوئی براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے اور وہ ان کے بجائے ان کے والد شاہ سلمان سے فون پر بات کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، جو کہ اطلاعات کے مطابق سخت علیل ہیں اور حکومت کے روز مرہ کے کاموں میں ان کی ساری ذمہ داریاں پرنس سلمان ہی ادا کر رہے ہیں۔


دفاعی اور سلامتی مبصرین کا کہنا ہے کہ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے امریکی اتحادی، سعودی عرب کی ہچکچاہٹ اقتصادیات سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ان کے امریکی تعلقات کے بدلتے تاثرات، کثیر قطبی دنیا کے ابھرنے اور مشرق وسطیٰ سے ایک دہائی طویل امریکی محور کے بدلنے کی علامت ہے۔

موجودہ جنگ میں عرب رویہ

خلیجی ریاستوں کی یوکرین جنگ کے بعد ان کی جانب سے امریکہ کی مدد کرنے میں ہچکچاہٹ اس بات کا اشارہ ہے کہ علاقائی اسٹریٹجک سوچ میں ایک بڑی تبدیلی کا جھکاؤ روس کی جانب ہوتا چلا جا رہا ہے اور ان کے دیرینہ اتحادی امریکہ سے دور ہو رہے ہیں۔


سفارتی ذرائع اور وال اسٹریٹ جرنل کا دعویٰ ہے کہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے حالیہ دنوں میں سعودی اور اماراتی رہنماؤں کو تیل کی پیداوار پر بات کرنے کے لیے ذاتی طور پر فون کرنے کی کوششوں کو متعدد مرتبہ مسترد کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یوکرین جنگ پر سعودی عرب اور یو اے ای نے ابھی تک اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے۔ اگرچہ سعودی عرب نے روسی حملے کی مذمت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، لیکن متحدہ عرب امارات نے اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ جبکہ صرف چھوٹے سے ملک قطر نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے والی اقوام متحدہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا اور امریکہ کی درخواست پر خام گیس کی پیداوار میں اضافے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ دیگر خلیجی ممالک تیل کی پیداوار میں اضافے کی امریکی درخواستوں کا جواب دینے میں پس و پیش کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔

موجودہ بحران کی وجہ

کئی دنوں کی شدید امریکی سفارت کاری کے بعد، 9 مارچ کے روز امریکہ میں اماراتی سفارت خانے نے اماراتی سفیر یوسف العتیبہ کے ساتھ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ متحدہ عرب امارات ''اوپیک کو اعلیٰ پیداوار کی سطح پر غور کرنے کی ترغیب دے گا۔''


جہاں ایک طرف امریکی حکام ان ممالک کی ہچکچاہٹ پر ''حیرت'' کا اظہار کرتے ہیں، وہیں عرب خلیجی حکومتوں کا اصرار ہے کہ حقیقت میں امریکہ کی وجہ سے ہی ماحول بدل گیا ہے، کیونکہ وہ ان ملکوں کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات قائم رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ خلیجی تیل کے بہاؤ پر امریکی اثر و رسوخ کے بدلے اپنے کئی دہائیوں پرانے انتظامات، امریکی تحفظ اور سلامتی کے پس منظر میں دیکھتے ہیں، جیسا کہ 1980 میں اس وقت کے صدر جمی کارٹر کے ''کارٹر نظریے'' میں بیان کیا گیا تھا، جو کہ بڑی حد تک اب ناکارہ ہوچکا ہے۔ اس وقت امریکی صدر کے صرف ایک فون کال پر ہی عرب ملکوں میں تیل کی پیداوار کم یا زیادہ کرنے کی وجہ سے عالمی بازار میں تیل کی قیمت اوپر نیچے ہوجاتی تھیں۔

امریکہ کے ناقابل اعتبار ہونے کے ثبوت کے طور پر، عرب خلیجی حکام نے عراق کے خلاف امریکی جنگ کا حوالہ دیا جس نے ایران کو طاقتور بنایا اور تہران کو ان کے دارالحکومتوں کی جانب اشارہ کرنے والے میزائل نصب کرنے کی اجازت دی، اوباما انتظامیہ جس نے ایرانی جوہری معاہدے میں عرب کے سیکورٹی خدشات کو نظر انداز کیا، اور ٹرمپ انتظامیہ نے بھی کوئی خاطر خواہ اقدام لینے سے گریز کیا، اس کی وجہ سے ان تعلقات پر کافی غیر مثبت اثر ثبت ہوا ہے۔


بائیڈن انتظامیہ کا امریکی پالیسی کو مشرق وسطیٰ سے دور اور ایشیاء کی طرف از سر نو ترتیب دینے کا عزم ہے۔ ایک ایسا نیا محور جس کا آغاز اوباما انتظامیہ سے ہوا تھا اور اس وقت صدر جو بائیڈن ان کے سکریٹری آف اسٹیٹ ہوا کرتے تھے۔ اور افغانستان سے امریکہ کے تباہ کن انخلاء نے بہت سی خلیجی حکومتوں کو اس بات پر قائل کر دیا کہ امریکہ پر علاقے کی سیکوریٹی کے معاملے پر مزید اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ گو کہ خطے میں امریکی فوجی دستوں کی بڑے پیمانے پر موجودگی جاری ہے۔

واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کے سینئر رہائشی اسکالر حسین ابیش کا کہنا ہے: ’’اب اور 15 سال پہلے کے درمیان سب سے بڑا فرق واشنگٹن کی قابل اعتمادی کی کمی کا احساس ہے جو خلیج میں پھیلی ہوئی ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جو کئی دہائیوں سے واشنگٹن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔نتیجے کے طور پر، یہ ممالک اپنے خارجہ تعلقات کے تزویراتی تنوع کو اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا کہ واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانا۔ یوکرین کے بارے میں ان کا ردعمل اس تبدیلی کا سب سے بڑا اشارہ ہے۔‘‘


روس کی جانب جھکاؤ

گزشتہ آٹھ سالوں میں، خلیجی ریاستوں نے اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے دوسری عالمی طاقتوں کی جانب دیکھنا شروع کر دیا تھا اور اس میں روس اور چین سرِ فہرست تھے۔ اگر امریکہ خطے سے دور ہو رہا تھا تو روس تیزی سے ایک نئے پاور بروکر کے طور پر ابھر کر سامنے آرہا تھا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ چین بھی انہیں خطوط پر چل رہا تھا۔

''جس لمحے روس نے شام کے تھیٹر میں فوجی طور پر داخل ہو کر بشارالاسد کو قریب آنے سے بچایا، اس خطے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روس وہاں موجود ہے۔ روس نے خطے کے ممالک کی طرف سے یہ غیرمعمولی احترام حاصل کیا،‘‘ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کی سینئر فیلو انا بورشچیوسکایا کہتی ہیں۔


اس کی وجہ سے 2018 میں متحدہ عرب امارات نے روس کے ساتھ ایک نئے اسٹریٹجک سیکورٹی معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ سعودی عرب نے اگست 2021 میں ماسکو کے ساتھ ایسا ہی معاہدہ کیا تھا۔ جب متحدہ عرب امارات نے امریکہ سے ایف- 35 جنگی طیاروں کی خریداری کو بائیڈن انتظامیہ نے ابوظہبی کے چین کے ساتھ تعلقات پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس فروخت پر روک لگا دی تھی تو روس نے متبادل کے طور پر اپنے جنگی طیاروں کی پیشکش کی تھی۔

جس طریقے سے امریکہ نے حالیہ برسوں میں خلیجی علاقے سے دوری اختیار کرنے کی کوشش کی ہے اس وجہ سے روس کو تیزی سے ایک نئے پاور بروکر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور خلیجی ریاستوں نے یوکرین پر سخت موقف اختیار کرنے سے انکار کر دیا ہے تاکہ روس کے ساتھ ان کے تعلقات خراب نہ ہوں۔


تیل کی جنگ

دراصل تیل کی پیداوار بڑھانے میں سعودی عرب کی ہچکچاہٹ کے پیچھے ایک اور وجہ تیل کی قیمتوں کا کم ہونا بھی ہے۔ OPEC-Plus فی الحال 2020 کے موسم گرما میں روس کے ساتھ طے شدہ ایک معاہدے کے تحت طے شدہ نرخوں پر تیل پیدا کر رہا ہے جس نے ریاض اور ماسکو کے درمیان چار ماہ کی تباہ کن قیمتوں کی جنگ کا خاتمہ کر دیا تھا، جس نے کورونا وبا کے عروج پر تیل کو منفی قیمتوں پر دھکیل دیا تھا۔ ''مسئلہ یہ ہے کہ سعودیوں کے پاس روس کے ساتھ قیمتوں کے تعین کی جنگ جیتنے اور موجودہ پیداواری سطحوں پر طے شدہ ہر چیز کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی۔ اور اب انہیں اچانک کہا جا رہا ہے کہ انہیں پیداوار میں اضافہ کرنا ہے،'' ایبش کہتے ہیں۔ ''یہ ایک بڑا اور پریشان کن سوال ہے۔''

ماہرین کا ماننا ہے کہ اب پیداوار بڑھانے سے، سعودی عرب کی آمدنی میں قلیل مدتی اضافہ تو ہوگا لیکن درمیانی اور طویل مدتی تیل کی آمدنی میں کمی دیکھنے کو ملے گی، جس کا غیر مثبت اثر اس کے مستقبل کے 10 سالہ منصوبوں، ایک نئے ٹیک سیکٹر کی تعمیر، اس کی نوجوان آبادی کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرنا اور پرنس سلمان کے وژن- 2030 کے لیے رقم مہیا کرانا مشکل ہوجائے گا۔


مجموعی طور پر اگرچہ چھوٹی خلیجی ریاستوں نے واشنگٹن کو تیل کی پیداوار میں اضافے کے لیے اپنی رضامندی کا اشارہ دیا ہے، لیکن وہ سعودی عرب سے معاہدے کے بغیر کام نہیں کر سکتے، جو کہ ولی عہد کے ساتھ بائیڈن کے برتاؤ سے شروع ہو کر امریکی رعایتوں کو روک رہا ہے۔ اگر واشنگٹن اور ریاض تعطل کا شکار رہے تو مبصرین کا کہنا ہے کہ دیگر مغربی ممالک خلیج پر مزید تیل کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ وینزویلا اور ایرانی خام تیل کو مارکیٹ میں لانے کے امکانات، خلیجی ریاستوں کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔