حسرت موہانی: مجاہد آزادی اور شاعر

فیض الحسن حسرت موہانی 14اکتوبر 1875 میں ضلع اناؤ کے موہان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں بابائے قوم گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے شانہ بشانہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

تصویر جمال عباس فہمی
تصویر جمال عباس فہمی
user

جمال عباس فہمی

اکثر کہا جاتا ہے کہ انسان کی قدر اور اہمیت کا اندازہ اس کی موت کے بعد ہوتا ہے لیکن یہ ہمیشہ اور ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتا۔ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ بہت سی شخصیات کی قدر نہ ان کے جیتے جی کی گئی اور نہ ان کے مرنے کے بعد ان کی مںزلت اور خدمات کے شایان شان ان کو اہمیت دی گئی۔ تاریخ کی فراموش کردہ ہستیوں میں ایک نام حسرت موہانی کا بھی ہے۔ جو اپنی حیات میں بھی بہت قد آور تھا اور اپنی جد و جہد اور کارناموں کی بدولت آج بھی بہت بلند قامت ہے لیکن ہماری کوتاہ نظری اس کے قد کو ناپنے میں ناکام رہی ہے۔ ابھی چودہ اکتوبر حسرت موہانی کی تاریخ ولادت گزری ہے۔ ایک مختصر سے سرکاری اشتہار کے سوا حسرت موہانی کو شایان شان طریقے سے یاد کرنے کی کسی نے زحمت نہیں کی۔ سرکار سے یہ شکایت عبث ہے کہ وہ اردو کے مجاہدوں کی خدمات کا اعتراف کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کرے گی۔ لیکن کم از کم اردو کی خدمت کا دم بھرنے والوں کو تو قلم کے اس مجاہد کی خدمات کا اعتراف کرنے اور ان کی خدمات سے نئی نسل کو واقف کرانے کی زحمت کرنا چاہئے تھی۔

فیض الحسن حسرت موہانی 14اکتوبر 1875 میں ضلع اناؤ کے موہان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں بابائے قوم گاندھی جی اور پنڈت نہرو کے شانہ بشانہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں انقلاب زندہ باد جیسا نعرہ حسرت موہانی کی ہی دین ہے۔ ان کا یہ نعرہ آج بھی مختلف قسم کی تحریکیں چلانے والوں کے دلوں کو جوش اور ولولے سے بھر دیتا ہے۔ لیکن ہم اس مضمون میں حسرت موہانی کی جدو جہد آزادی میں ان کی خدمات پر روشنی نہیں ڈالیں گے بلکہ اردو کے ایک قلمکار کی حیثیت سے ان کی گراں بہا خدمات کا ذکر کریں گے۔


حسرت موہانی شاعر بھی تھے۔ ناقد بھی تھے۔ تزکرہ نگار بھی تھے۔ مصنف بھی تھے اور صحافی بھی تھے۔ حسرت موہانی نے 1903 میں علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ ایک دور میں وہ وکیل بننا چاہتے تھے لیکن وکالت کی پڑھائی میں جی نہیں لگا تو درمیان میں ترک کردی۔ فطری طور پر حسرت شاعر، انقلابی اور اصلاحی ذہن کے حامل تھے۔ ملک کی آزادی کے لئے جاری تحریک میں شامل ہونے سے خود کو روک نہ سکے۔ لیکن ایسا نہیں کہ جد و جہد آزادی میں سرگرمی نے ان کے شاعرانہ احساسات و جذبات کو سرد کر دیا ہو بلکہ حصول آزادی کی تگ و دو کے ساتھ ساتھ مشق سخن بھی جاری رہی۔ اس کا اعتراف ان کے اس مشہور شعر میں نظر آتا ہے۔

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

ایک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی

انہوں نے شعری اور نثری تخلیقات کا ایک ذخیرہ چھوڑا ہے جو اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اردوئے معلیٰ جیسا تاریخی جریدہ شائع کیا۔ حسرت موہانی نے شرح کلام غالب کے عنوان سے غالب کی شاعری کی شرح بھی تحریر کی جو ناقدین ادب کی نگاہ میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ تحریک آزادی کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، تو جیل کے تجربات قلم بند کردیئے جو مشاہدات زنداں کے نام سے منظر عام پر آئے۔ مشاہدات زنداں بھی ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ حسرت موہانی نے کلاسیکی اور اپنے دور کے جدید شعرا کے کلام کو یکجا کرکے سات جلدوں میں شائع کیا۔ جو اپنے آپ میں ایک بڑا ادبی کارنامہ ہے، حسرت موہانی نے شاعری بہت کم عمری میں شروع کر دی تھی۔


حسرت موہانی فطری طور پر شاعر تھے اور بنیادی طور غزل کے شاعر تھے۔ غزل ان کے شعری ذوق کی تسکین کا سامان تھی۔ ان کا شعری آہنگ اور لہجہ خالص غزل کا ہے۔ وہ عشقیہ مضامیں کو دل نشیں انداز میں باندھنے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ کلیات حسرت کے نام سے ان کا کل شعری سرمایہ موجود ہے۔ شعرو سخن کے پارکھیوں نے انداز کلام اور موضوعات سخن کے اعتبار سے ان کی شاعری کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ عاشقانہ۔عارفانہ اور عامیانہ۔ ان کے کلام کا بڑا حصہ عشقیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ ان کے یہاں غالب کی سی شوخی بھی نظر آتی ہے اور میر کی سادگی بھی۔ حسرت کی شاعری کا کچھ حصہ عارفانہ مضامین پر مشتمل ہے۔ حسرت موہانی کے بعض اشعار نہایت بازاری اور کورے جذباتیت پر مبنی ہیں جنہیں عامیانہ شاعری کے خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کے یہ اشعار

اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

خوبروؤں سے یاریاں نہ گئیں

دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں

عشقیہ اور حسن و جمال کے مضامین حسرت کے ہسندیدہ ہیں۔ ان کے بعض اشعار تو ضرب المثل بن گئے ہیں۔

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

........

انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق ہے

پھر آگئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم

........

ایسے بگڑے کہ پھر جفا بھی نہ کی

دشمنی کا بھی حق ادا نہ ہوا

........

نہیں آتی جو ان کی یاد تو پہروں نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

........

وہ آئینے میں دیکھ رہے تھے بہار حسن

آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے

........

دیکھا کیا وہ مست نگاہوں سے بار بار

جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے

........

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی

دامنوں کی نہ خبر ہے نہ گریبانوں کی

........

حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا

کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

........

یہ بھی آداب محبت نے گوارا نہ کیا

تیری تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی


حسرت موہانی نے عارفانہ مضامین کو بھی بہت خوبصورت کے ساتھ باندھا ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کی پوری کی پوری غزلیں معرفت کے مضامین اور موضوعات پر مشتمل ہیں۔ نمونے کے طور پر یہ اشعار

یاد کر وہ دن کہ تیرا کوئی سودائی نہ تھا

باوجود حسن تو آگاہ رعنائی نہ تھا

........

دید کے قابل تھی تیرے عشق کی بھی سادگی

جبکہ تیرا حسن سرگرم خود آرائی نہ تھا

........

عشق روز افزوں پہ اپنے مجھ کو حیرانی نہیں

جلوہ رنگیں یہ تجھ کو ناز یکتائی نہ تھا

........

کیا ہوئے وہ دن کہ محو آرزو تھے حسن و عشق

دبط تھا دونوں میں گو ربط شناسائی نہ تھا

........

تو نے حسرت کی عیاں تہذیب رسم عاشقی

اس سے پہلے اعتبار شان رسوائی نہ تھا

حسرت موہانی کے بعض اشعار نے تو آفاقی شہرت حاصل کی، میر تقی میر کی طرح حسرت موہانی کی بعض غزلوں میں بلا کی موسیقیت موجود ہے۔ ان کی کچھ غزلوں کو گلوکاروں نے گاکر مقبول عام بنا دیا۔ مثال کے طور پر ان کی یہ غزل

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو ابتک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

تجھ سے ملتے ہی وہ کچھ بے باک ہوجانا مرا

اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

آگیا گر وصل کی شب بھی کبھی ذکر فراق

وہ ترا رو رو کے مجھکو بھی رلانا یاد ہے

دو پہر کی دھوپ میں مجھ کو بلانے کے لئے

وہ تیرا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے


یہ غزل ایک فلم کے وسیلے سے خاص و عام تک پہنچی اور مقبول ہوئی۔ ان کی ایک اور غزل جو بہت مقبول ہوئی۔

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں

خاموش اک نظر سے ہوئی انجمن تمام

حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب

دل نے بھی تیرے سیکھ لئے ہیں چلن تمام

حسرت موہانی کی شعری خدمات پر نہ زیادہ کام ہوا ہے اور نہ ملک کی آزادی کی تحریک میں ان کی کاوشوں سے عوام کو واقف کرایا گیا۔ حسرت موہانی حصول آزادی کے بعد اس آئین ساز کونسل کے رکن تھے جس نے آئین مرتب کیا۔


25 فروری 2014 کو حکومت کے محکمہ ڈاک نے حسرت موہانی پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ آزاد ہندوستان میں اردو زبان کو اس کا جائزحق دلانے کی لڑائی میں جو شخص پیش پیش رہا اس کو اردو والوں نے ہی فراموش کر رکھا ہے۔ اردو کے اس عظیم مجاہد نے 13مئی 1951 میں لکھنؤ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔

آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔