صاحب طرز فکشن نگار اسلم جمشید پوری

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کے ادبی قد کا ندازہ لگانے کے لئے یہ امر ہی کافی ہے کہ ان کی شخصیت، ان کی ادبی خدمات اور فنی صلاحیتوں پر اب تک تین کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں۔

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری
ڈاکٹر اسلم جمشید پوری
user

جمال عباس فہمی

کسی کے ادیب بننے کے لئے یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ اس کے خاندان میں کوئی ادیب پیدا ہوا ہو۔ انسان کے اندر ادب تخلیق کرنے کی صلاحیت خدا کی ودیعت کردہ ہوتی ہے۔ صحبت، رہنمائی اور مشق خدا داد صلاحیتوں کو نکھار دیتی ہے۔ اسلم جمشید پوری کی شخصیت اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ ان کے خاندان میں کوئی ادیب نہیں ہوا۔ لیکن ان کے اندر ادب کا ذوق بچپن سے موجود تھا۔ اسلم جمشید پوری کے اندر ادبی ذوق پیدا ہونے کے پیچھے ان کے والد کا ادب پڑھنے کا رجحان کارفرما ہے۔ اسلم جمشید پوری کے والد اعلیٰ تعلیم یافتہ تو نہیں تھے لیکن انہیں افسانے اور ناول پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس لئے گھر میں افسانوی مجموعات، ادبی رسالوں اور ناولوں کا ذخیرہ موجود رہتا تھا۔ اسلم جمشید پوری نے درجنوں ناول اور سیکڑوں افسانے بچپن میں ہی پڑھ ڈالے تھے۔ اسلم جمشید پوری میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے اردو شعبہ کے سربراہ ہیں۔ وہ ایک ناول نگار، افسانہ نگار، تنقید نگار، محقق، اسکرپٹ رائٹر اور بچوں کے ادیب ہیں اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی خوب کرتے ہیں۔ اسلم جمشید پوری کی ادبی خدمات کی تفصیل میں جانے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کے بارے میں آگاہی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے۔

اسلم جمشید پوری کا اصل اور پورا نام محمد اسلم خاں ہے۔ ان کے والد شمس الدین کا وطن اتر پردیش کے ضلع بلند شہر کا موضع عالم گیر پور دھنورا ہے۔ شمس الدین رولنگ ملس مکینک تھے۔ بہتر روزگار کی تلاش میں وہ ترک وطن کرکے جھار کھنڈ کے صنعتی شہر جمشید پور پہنچے اور بگان شاہی میں سکونت اختیار کی۔ 10 اکتوبر1967 کو محمد اسلم خاں اس دنیا میں وارد ہوئے۔ اسلم خاں کی ابتدائی تعلیم بگان شاہی جمشید پور کے جواہر پرائمری اسکول میں ہوئی۔ 1983 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1987 میں انٹر اور 1990 میں رانچی یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور 1991 میں بی ایڈ کیا۔


اپنے ذہن میں مستقبل کا خاکہ لئے اسلم خاں نے دہلی کا رخ کیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا دامن تھام لیا۔ 1994 میں اول پوزیشن کے ساتھ اردو میں ایم اے کیا۔ 1997 میں پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔ 2000 میں آزادی کے بعد اردو افسانہ فکری و فنی جائزہ، کے موضوع پر تحقیقی مقالہ تحریر کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اسلم خان نے اپنا تحقیقی مقالہ پروفیسر عظیم الشان صدیقی کی نگرانی میں تحریر کیا۔ اسلم خان بہت پہلے ہی درس و تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ ہونے کا ہدف مقرر کر چکے تھے۔ دوسروں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا شوق ان کے اندر اس وقت ہی پیدا ہو چکا تھا جب وہ خود طالب علم تھے۔ ساتویں کلاس میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ساتھیوں کو پڑھانے لگے تھے۔ اسلم خاں نے کبیریا اردو مڈل اسکول میں استاد کے طور پر خدمات بھی انجام دیں۔ اسی کبیریا اردو مڈل اسکول میں انہوں نے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی تھی۔

اسلم خاں کی زندگی میں دو موقعے ایسے آئے کہ جب انہوں نے اسی علمی ادارے کی بحیثیت استاد خدمت کی جس میں وہ خود تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ کبیریا اردو مڈل اسکول کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ ایسا ادارہ رہا جس میں اسلم خاں نے لیکچرر کے طور پر طلبا کی علمی لحاظ سے آبیاری کی۔ 1998 سے 2002 تک وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ تعلیم سے مہمان لیکچرر کے طور پر وابستہ رہے۔ سن 2002 اسلم خاں کی زندگی میں ایک بہت اہم موڑ لیکر آیا جب انہوں نے 35 برس کچھ ماہ کی عمر میں میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا۔ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو ایک طرح سے اسلم خان نے قائم اور مستحکم کیا۔ اس حقیقت کا اعتراف اردو حلقوں میں اکثر کیا جاتا ہے کہ جتنا سرگرم اور فعال میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کا اردو شعبہ ہے شاید ہی ملک کی کسی دوسری یونیورسٹی کا اردو شعبہ ہو۔ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے اردو شعبہ کی تعلیمی اور تدریسی سرگرمی کا یہ عالم ہے کہ اب تک ان کی نگرانی میں 17 اسکالرز پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور 80 اردو اسکالرز ایم فل کے مقالے تحریر کرچکے ہیں۔ بیشتر مقالے منفرد نوعیت کے مضامین پر ہیں، جن کے سبب ادب کی مختلف جہات کی تشنگی دور ہوئی ہے۔


محمد اسلم خان اسلم جمشید پوری کیسے وجود میں آئے یہ قصہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔ اگر کسی اور قلمکار سے قلمی نام کی مشابہت کا معاملہ نہ ہوتا تو اسلم جمشید پوری اسلم جمشید پوری نہ ہوتے بلکہ ایم اسلم بدر ہوتے۔ قلمی نام کی تبدیلی کا قصہ ان کے سب سے پہلےافسانے کی اشاعت سے بھی وابستہ ہے۔ انہوں نے اپنا پہلا افسانہ ’نشانی‘ تحریر کیا اور اشاعت کے لئے دہلی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے، روشن ادب، کو روانہ کیا۔ اس وقت اسلم جمشید پوری ایم اسلم بدر کے قلمی نام سے لکھتے تھے۔ ستمبر1981 کے شمارے میں افسانہ، نشانی، شائع ہوا۔ اس دور میں جمشید پور میں اسلم بدر نام کے ایک شاعر ہوا کرتے تھے۔ اسلم جمشید پوری اور ان کے احباب نے مستقبل کے اندیشے کو محسوس کرتے ہوئے قلمی نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، مبادا ان کی ساری قلمی کاوشیں کسی اور کے اکاؤنٹ میں نہ جمع ہو جائیں اور اس طرح ایم اسلم بدر، اسلم جمشید پوری ہو گئے۔ اب ان کا یہ قلمی نام اتنا معروف ہو گیا ہے کہ لوگ ان کا اصل نام ہی بھول گئے ہیں۔

اسلم جمشید پوری دو حیثیتوں سے اردو ادب کی ترویج اور فروغ میں مشغول ہیں۔ ایک حیثیت ان کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر کی ہے اور دوسری ایک قلمکار کی۔ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر کی حیثیت سے سرگرمی کی اگر بات کی جائے تو وہ بھی بہت مثالی نوعیت کی ہے۔ بحیثیت صدرر شعبہ اسلم جمشید پوری کے کم از کم دو کارنامے تو تاریخی نوعیت کے ہیں جن سے اردو کی موجودہ نسل فیض اٹھا رہی ہے اور آئندہ نسلیں ہمیشہ فیضیاب ہوتی رہیں گی۔ انہوں نے ایم اے اردو کا نصاب جدید عصری تقاضوں کے عین مطابق ترتیب دیا ہے یعنی اس میں موجودہ دور کے موضوعات مثلاَ ترجمہ نگاری، اسکرپٹ رائٹنگ، انفارمیشن ٹیکنالاجی، میڈیا اور کمپیوٹر کو شامل کیا ہے۔


اسلم جمشید پوری نے اردو ماس میڈیا کورس شروع کیا ہے۔ کسی یونیورسٹی میں شروع ہونے والا شاید یہ پہلا پوسٹ گریجویٹ سطح کا ڈگری کورس ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اردو صحافیوں کا ایک بہت بڑا لشکر تیار ہوگیا جو مختلف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اداروں سے وابستہ ہوکر روزگار سے بھی لگا ہوا ہے اور اس حوالے سے اردو کے فروغ میں بھی شامل ہے۔ اردو ماس میڈیا کے طلبا بزات خود اسلم جمشید پوری کے تجربات سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ اسلم جمشید پوری کسی نہ کسی حیثیت سے میڈیا سے منسلک رہتے ہیں۔ ان کے لا تعداد مضامین، رپورٹیں اور تبصرے اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ وہ کئی جریدے خود بھی شائع کرچکے ہیں۔ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کا ترجمان ششماہی جریدہ، ہماری آواز، ادبی حلقوں میں اپنے خاص شماروں کی وجہ سے بے حد مقبول ہے۔ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سرگرمیوں نے میرٹھ کی ادبی فضا میں ان کو زبردست طور سے مرتعش کیا ہے۔

اسلم جمشید پوری نے شہر کے پرانے اور نئے لکھنے والوں کو پلیٹ فارم مہیا کیا۔ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں آئے دن کسی نہ کسی ادبی حوالے سے پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ مختلف موضوعات اور ادبی شخصیات پر سیمنار، سمپوزیم اور نشستوں کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ نئے اور پرانے قلمکاروں کی تخلیقات کو عوام تک پہنچانے میں بھی شعبہ اردو تعاون کرتا ہے۔ اسلم جمشید پوری اور یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی کاوشوں کی بدولت متعدد اہم کتابوں کی تخلیق اور اشاعت ممکن ہوسکی۔ جن میں نظم جدید کی تثلیث، جدید غزل کا اہم موڑ، بشیر بدر، علیم مظفرنگری حیات و خدمات، جدید شاعری کا نقطہ آغاز، اسماعیل میرٹھی اور اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں چند گمنام علما کا حصہ شامل ہیں۔


جہاں تک اسلم جمشید پوری کی تخلیقی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔ قلمی طور سے ان کی سرگرمی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اب تک ڈیڑھ درجن سے زائد کتابوں کی تصنیف، تالیف اور ترتیب کرچکے ہیں۔ ان کتابوں میں ناول، افسانوں، تنقیدی مضامین، ہندی کہانیوں اور اور بچوں کی کہانیوں کے مجموعے اور تراجم شامل ہیں۔ اسلم جمشید پوری کے افسانوں کے تین مجموعے، افق کی مسکراہٹ، لینڈرا اور کہانی محل، بچوں کے لئے تحریر کہانیوں کے دو مجموعے، ممتا کی آواز، اور عقل مند لڑکا۔ افسانچوں کا مجموعہ کولاژ منظر عام پر آچکے ہیں۔ اسلم جمشید پوری نے تنقید کے میدان میں بھی گراں قدر کام کیا ہے۔ جدیدیت اور اردو افسانہ، ترقی پسند اردو افسانہ، اردو افسانہ تعبیر و تنقد اور اردو فکشن تنقید و تجزیہ کے موضوعات پر ان کی تنقیدی کتابیں اہمیت کی حامل ہیں۔ اسلم جمشید پوری نے پروفیسر اصغر وجاہت کے ہندی ڈرامے، اکی، اور ڈاکٹر راہی معصوم رضا کے آدھا گاؤں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ افق کی مسکراہٹ 30 افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے جبکہ لینڈرا 26 مختصر افسانوں اور افسانچوں کا مجموعہ ہے۔ ناول، ناولٹ اور افسانوں کے تجزیات پر مبنی ان کی کتاب، تجزیے بھی بہت اہم کتا ب ہے۔ انہوں نے اپنی ایک کتاب اردو فکشن کے پانچ رنگ میں داستان، ناول، ناولٹ، افسانہ اور افسانچہ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

اسلم جمشید پوری الیکٹرانک میڈیا پر بھی سرگرم رہتے ہیں۔ رانچی، دہلی اور جمشیدپور ریڈیو اسٹیشنوں سے ان کے درجنوں مضامین اور افسانے نشر ہوچکے ہیں، جبکہ مختلف ٹیلی ویزن چینلز پر سو سے زیادہ پروگرام ٹیلی کاسٹ ہو چکے ہیں۔ اسلم جمشید پوری متعدد ٹی وی سیرئلز کی اسکرپٹس بھی لکھ چکے ہیں جن میں ریوتی سرن شرما کے ساتھ سیریل ’خوشی‘ کے علاوہ آپ بیتی، جگ بیتی، شمع جلتی رہی، چاند اور چکور، جانے کتنے موڑ، سانچ کو آنچ، ابن الوقت، روشنی، گلدستہ اور مرکز علم قابل ذکر ہیں۔ اسلم جمشید پوری نے ناول نگاری کے میدان میں بھی قدم رنجہ کیا ہے۔ ان کا پہلا ناول، دھنورا، منظر عام پر آچکا ہے جسے فکشن کے شوقین افراد نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار اسلم جمشید پوری کا آبائی وطن ضلع بلند شہر کا موضع عالم گیر پور دھنورا ہے۔ یہ ناول کولاژ تکنیک پر لکھا گیا ہے۔ ناول میں دھنورا ایک اسٹیج کا کام کرتا ہے جس پر مختلف کردار اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ بھائی چارہ اور ہم آہنگی اس ناول کا موضوع ہے۔ جہاں تک اسلم جمشید پوری کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو ان پر یہ مشہور عام مقولہ صادق آتا ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر تسنیم فاطمہ کی رائے میں اسلم جمشید پوری سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح پہچانتے اور سمجھتے ہیں۔ ان کے افسانے جہاں سماجی حقیقت نگاری پر مبنی ہیں وہیں انفرادی الجھنوں اور پریشانیوں کی عکاسی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔


اسلم جمشید پوری کئی موضوعات پر کام کر رہے ہیں۔ کئی کتابیں زیر تصنیف اور زیر ترتیب ہیں۔ وہ صدی کے سو منتخب افسانوں کو یکجا کرکے کتابی شکل میں لا رہے ہیں۔ رسول اللہ کی حیات طیبہ پر افسانے بھی جمع کرکے پیش کرنے والے ہیں۔ ما بعد جدیدیت اور اردو افسانہ کے موضوع پر کتاب زیر تصنیف ہے۔ اسلم جمشید پوری کی ادبی خدمات کا اعتراف مختلف انجمنوں اور اداروں کی جانب سے کیا جا چکا ہے۔ انہیں متعدد اعزازات اور انعامات سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔ انہیں، سٹیزن آف دی ورلڈ اعزاز، انجم جمالی ایوارڈ برائے افسانہ، ماکھن چترویدی ایوارڈ، ایوارڈ برائے صحافت، ضمیر نوحی ایوارڈ برائے سماجی و تعلیمی خدمات اور بے دل ایوارڈ سے سرفراز کیا جا چکا ہے۔

ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کے ادبی قد کا ندازہ لگانے کے لئے یہ امر ہی کافی ہے کہ ان کی شخصیت، ان کی ادبی خدمات اور فنی صلاحیتوں پر اب تک تین کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں۔ ڈاکٹر تسنیم فاطمہ کی ڈاکٹر اسلم جمشید پوری بحیثیت افسانہ نگار ایک جائزہ اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی اسلم جمشید پوری فن اور فنکار منظر عام پر آچکی ہیں، جبکہ فرقان سنبھلی نے اسلم جمشید پوری کے افسانوں کے دیہی پس منظر پر، اسلم جمشید پوری کے دیہی افسانے، نام سے کتاب تحریر کی ہے۔ ادبی محاذ پر جمے رہنے کے ساتھ ساتھ اسلم جمشید پوری کورونا جیسی مہلک بیماری سے مقابلہ بھی جیت چکے ہیں۔ وہ کئی ماہ بستر علالت پر رہے۔ لیکن انہوں نے اس دوران بھی نہ اپنی ادبی اور تخلیقی سرگرمیوں سے روگردانی کی اور نہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے بطور سربراہ ذمہ داریوں کی ادائے گی میں کوئی کوتاہی برتی۔ اس سے ان کا احساس ذمہ داری ظاہر ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔