منفرد طرز کا خاکہ نگار... غیور نقوی

غیور حسن ان قلمکاروں میں شامل ہیں جنہیں کسی سرکاری انعام و اکرام سے تو نہیں نوازہ گیا لیکن اہل وطن نے انہیں اپنی محبتوں سے بہت نوازہ، ان کے تحریر کردہ خاکے پڑھ کر آج بھی لوگ بے ساختہ مسکرا اٹھتے ہیں۔

غیور حسن
غیور حسن
user

جمال عباس فہمی

دنیا بھر میں امروہہ کی پہچان بھلے ہی شعرو شاعری کے حوالے سے قائم ہوئی ہو لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس سرزمین نے نثر نگار پیدا نہیں کئے۔ نثر کے میدان کے شہسوار بھی اس ادبی رزم گاہ میں دوڑتے نظر آتے ہیں۔ افسانہ نگاری، مضمون نگاری، انشا پردازی، تحقیق و ترتیب و تالیف سے لے کر مزاح نگاری تک کے میدانوں میں امروہہ کے اہل قلم نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ سید محمد ہاشم، نور الحسن نقوی، خورشید رضوی، نوشابہ خاتون، پروفیسر خلیق احمد نظامی، سخی حسن، غلام حیدر، رئیس نجمی اور اکرم فاروقی سے لے کر پروفیسر منظر عباس نقوی تک درجنوں قلمکاروں کے نثری شاہکار اردو کے نثری ادب کا سرمایہ بنے ہوئے ہیں۔ سید غیور حسن نقوی نے نثر کے میدان میں مزاح نگاری کا مورچہ سنبھالا۔ انہوں نے کئی درجن افسانے لکھے۔ مضامین لکھے، جاسوسی ناول لکھے، لیکن ان کی شناخت بطور مزاح نگار ہی قائم ہوئی اور مزاح میں بھی انہوں نے خاکہ نگاری کو منتخب کیا۔ خاکہ نگاری میں انہیں کمال حاصل تھا۔ غیور حسن نقوی کون تھے کس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت کے بارے میں جاننے کے بعد ہی ان کے فن پر گفتگو مناسب معلوم ہوتی ہے۔

25 اگست 1917 میں سید ضمیر علی نقوی کے گھر میں فرزند کی ولادت ہوئی۔ نام رکھا گیا سید غیور حسن نقوی، ان کا سلسلہ نسب آفاقی شہرت یافتہ کراماتی بزرگ سید حسین شرف الدین شاہ ولایت کے توسط سے فرقہ امامیہ کے دسویں امام امام علی نقی سے جاکر ملتا ہے۔ ابتدائی تعلیم اس دور کے رواج کے مطابق مکتب اور مدرسہ میں ہوئی۔ منشی اور کامل کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ہائی اسکول کیا۔ 1934 میں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ دوران ملازمت ٹیچرس ٹریننگ کی۔ مختلف شہروں میں مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے اور1977 میں امروہہ کے میونسپل بورڈ سے اٹینڈینس افسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔


غیور نے بچپن اور لڑکپن میں بڑے صدے اٹھائے۔ چار برس کے تھے جو ماں کے شفیق سائے سے محروم ہو گئے تھے۔ والد نے جلد ہی دوسری شای کرلی تھی۔ غیور حسن مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے حصول سے محروم کردیئے گئے۔ لیکن امروہہ کے معروف مزاحیہ شاعر شہباز امروہوی نے غیور حسن کی سر پرستی اور حوصلہ افزائی کی۔ ان کی محنت اور شفقت کے سبب غیور حسن منشی اور منشی کامل کے امتحان پاس کرسکے۔

غیور حسن کوعین عنفوان شباب میں ہی لکھنے لکھانے کا چسکہ لگ چکا تھا۔ مزاج ادبی پایا تھا لیکن حس مزاح کچھ زیادہ ہی پھڑکتی تھی۔ اس لئے جو بھی لکھا اس میں بیشتر مزاح پر مشتمل رہا۔ سب سے پہلا افسانہ جو لکھا اس کا عنوان ہی ان کی حس مزاح کا غماز ہے۔ وہ افسانہ تھا، دوسر ے کی بیوی۔ غیور حسن کو ایک اور بڑا عجیب شوق تھا فرضی اور کاغذی ناموں سے لکھنے کا۔ انہوں نے اسد جمیل عزیز پوری، شمیم امروہوی اور کیف المسلمی کے فرضی ناموں سے خوب لکھا اور خوب چھپے۔ کچھ افراد کے مطابق انہوں نے کچھ مجبوریوں کے تحت فرضی ناموں سے لکھا۔ غیور حسن ناول نگار، افسانہ نگار، انشا پرداز، مقالہ نگار، مذہبی اور تاریخی کتابوں کے مصنف مترجم اور مولف تھے، لیکن بنیادی طور پر وہ ایک خاکہ نگار تھے۔ ان کی خاکہ نگاری کا لوہا تو معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین تک نے مانا۔ مجتبیٰ حسین کے مطابق غیور صاحب کی خاکہ نگاری کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ جس شخصیت کا خاکہ لکھتے ہیں پہلے اسے اپنی ذات میں سمو لیتے ہیں۔ پھر اسے اپنی ذہانت کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور اس کے بعد اس شخصیت کی گتھیوں کو سلجھانا شروع کر دیتے ہیں اور نتیجہ میں اس شخص کی اچھائیاں اور برائیاں دونوں الگ الگ روپ میں سامنے آ جاتی ہیں۔


ناوک حمزہ پوری کہتے ہیں کہ مشہور ہے کہ پڑھے گھر کی بلی بھی پڑھی۔ میرے نزدیک غیور صاحب واجب التعظیم ہیں اس لئے کہ وہ سید بھی ہیں۔ غیور بھی ہیں اور حسن بھی ہیں۔ اور ان خوبیوں کے ساتھ اچھے قلم کار بھی ہیں۔ ان کا طرزنگار دلچسپ۔ ان کا انداز نگارش منفرد، ان کی زبان رس دار اور ان کا قلم ادب کا معیار ہے۔

معروف ناقد مصباح احمد صدیق غیور حسن کی خاکہ نگاری پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ غیور حسن کے خاکے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک نہایت سچا، ایماندار اور غیر جانبدار تنقید نگار چھپا ہوا ہے۔

ڈاکٹر تابش مہدی کے مطابق، امروہہ کے پڑھے لکھے طبقے میں انہیں وہی قدر و منزلت اور مقام و شہرت حاصل ہے جو علی گڑھ میں کبھی صرف رشید احمد صدیقی کے لئے مخصوص تھی۔

اردو ادب میں خاکہ نگاری کی روایت بہت پرانی نہیں ہے لیکن اس میدان میں لکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ کبھی نہیں رہی۔ انیسویں صدی کے اواخر سے پہلے خاکہ نگاری کی کہیں جھلک بھی نہیں تھی۔ سیرت نگاری اور سوانح نگاری تو موجود تھی لیکن خاکہ نگاری کا خاکہ بھی نہیں تھا۔ تاریخ، تذکرہ نویسی، سوانح، اور حالات نگاری میں خاکہ نگاری کے اجزائے ترکیبی الگ الگ طور سے موجود تھے۔ مولانا محمد حسین کو خاکہ نگاری کا باوا آدم کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ انہوں نے آب حیات میں شعرا کے حالات واقعا ت اور حلیہ بشریٰ جوبیان کیا ہے خاکہ نگاری کا اسے نقش قول قرار دیا جاسکتا ہے۔ خاکہ نگاری کی راہ قدرے خاردار ہے اس لئے اس پر قدم رنجہ کرنے والوں کی تعداد ہر دور میں کم ہی رہی ہے۔ محمد حسین آزاد، مولوی عبدالحق، فرحت اللہ بیگ سے لے کر غیور حسن تک اردو میں خاکہ نگاری کرنے والوں کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ اردو کا پہلا خاکہ نگار ہونے کا سہرا فرحت اللہ بیگ کے سر ہے۔ ان کا خاکہ نذیر احمد کی کہانی۔ کچھ ان کی کچھ میری زبانی۔ اردو ادب کا شاہکار ہے اور اردو خاکہ نگاری کی بنیاد کا پتھر ہے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر رشید احمد صدیقی،عبدالمجید سالک، چراغ حسن اختر، شوکت تھانوی، سعادت حسن منٹو، رئیس جعفری،عصمت چغتائی، احمد جمال پاشا، وزیر آغا، مشتاق احمد یوسفی، مشفق خواجہ، طفیل احمد، احمد ندیم قاسمی، ظ انصاری اور مجتبیٰ حسین کے تحریر کردہ خاکے اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ اسی سلسلے کو امروہہ کے غیور حسن نے آگے بڑھایا اور بہت عمدگی سے آگے بڑھایا۔


خاکہ نگاری کیا ہے تھوڑی سی جان کاری اس کی بھی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ یہ وہ فن ہے جس میں اختصار کے ساتھ کسی شخصیت کی سیرت اور سوانح کے پہلوؤں کو ایسے دلچسپ انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والا اس سے محظوظ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کو اس شخص کے شکل و شمائل، عادات و اطوار، رفتار و گفتار اور اس کی زندگی کے حالات و واقعات سے آگاہی حاصل ہو جائے۔ خاکے میں شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کا ذکر ضروری ہے۔ خوبی یا خامی کسی ایک کو نظر انداز کرکے لکھی جانے والی تحریر خاکہ کے فریم میں فٹ نہیں ہوتی۔ نہ خوبیاں بیان کرنے میں چاپلوسی نظر آئے او ر نہ خامیوں کا ذکر کرنے میں بغض و عناد جھلکے۔ نہ ادھر مبالغہ ہو نہ ادھر آسمان و زمین کے قلابے ملائے جائیں۔ معتدل انداز میں خوبیاں اور خامیاں شستہ، شیریں اور مزاح کے لہجے میں اس طرح بیان کردی جائیں کہ شخصیت کا سراپا آنکھوں کے سامنے آجائے اور پڑھنے والا قہقہ مار کر نہ بھی ہنسے تو زیر لب مسکراہٹ تو نمودار ہو ہی جائے۔

غیور حسن بنیادی طور پر خاکہ نگار ہیں لیکن انہوں نے نثر کی مختلف جہتوں میں قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ میلاد پڑھنے والوں کے لئے، میلاد رسول لکھی جو طویل عرصے تک امروہہ اور قرب و جوار کے علاقوں کے میلاد خوانوں کے لئے کام آتی رہی۔ ماہنامہ، خلش کی ادارت بھی کی۔ کیف المسلمی کے نام سے ڈھائی سو صفحات پر مشتمل، سیرت النبی، تالیف کی۔ شمیم امروہوی کے نام سے 28 جاسوسی ناول تحریر کئے جو دہلی سے شائع ہونے والے ماہناہ، جاسوس، میں مختلف قلمی ناموں سے شائع ہوئے۔ ان ناولوں کی انہیں اجرت ادا کی گئی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ غیور حسن نے یہ جاسوسی ناول پیسوں کے لئے ہی تحریر کئے تھے۔ ایک رومانی ناول، خزینہ، کے نام سے بھی تحریر کیا تھا۔ لیکن وہ بھی کسی دوسرے کے قلمی نام سے شائع ہوا۔ اس کی بھی قیمت انہیں ادا کردی گئی تھی، 30 علمی، ادبی اور اصلاحی مضامین سپرد قرطاس کئے لیکن ان میں صرف تین ہی شائع ہوئے بقیہ کسی نے چرا لئے۔ قرآن مجید کے تیرہ پاروں کا ہندی میں ترجمہ کیا۔ اپنے استاد اور مربی شہباز امروہوی کے قطعات کے مجموعے ’کوْ حلوے سے کباب تک‘ کے عنوان سے ترتیب دیا۔ رپورتاژ بھی لکھے۔ درجنوں افسانے لکھے جن کا مجموعہ منزل منزل کے عنوان سے شائع ہوا۔ ح خ (حلیے خاکے) سولہ خاکوں کا مجموعہ 1980 میں شائع ہوا۔ آئینہ خانہ کے عنوان سے 13 خاکوں کا دوسرا مجموعہ غیور حسن کی وفات کے بعد ان کے فرزندوں کی کوششوں کے طفیل منظر عام پر آیا۔ مرزا غالب کے اشعار پر تنقیدی اور مزاحیہ مضامین کا مجموعہ، بتنگڑ بھی غیور حسن کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ غالب کے اشعار پر مزاحیہ مضامین رامپور ریڈیو سے نشر ہوئے تھے، جنہیں یکجا کرکے کتابی شکل دے دی گئی۔ غیور حسن امروہہ کے شعرا کا تذکرہ تحریر کرنے کا کام شروع کرچکے تھے لیکن زندگی کی بے وفائی اور بے اعتنائی کے سبب وہ کام نا مکمل رہ گیا تھا جسے اب ان کے فرزند تنویر حسن مکمل کر رہے ہیں۔ ایک کتاب ان کے فرزند تنویر حسن نے سید غیور حسن فن اور شخصیت، کے عنوان سے مرتب کی ہے۔ اس میں غیور حسن کے فن اور شخصیت پر مضامین تواریخ وفات اور خراج عقیدت شامل ہے۔


خاکوں کے مجموعے ح خ میں امروہہ کی سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات کے خاکے ہیں، شعور ذات کے عنوان سے غیور حسن نے اپنا خاکہ بھی تحریر کیا ہے۔ اپنے خاکے میں انہوں نے اپنے ہم زاد کے حوالے سے اپنے حالات زندگی اپنی ذہنی اور شعوری کیفیات، اپنے مالی مسائل اور اپنی قلمی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے۔ آئینہ خانہ میں بھی کچھ مشاہیر اور امروہہ شہر کی کچھ ہستیوں کے خاکے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ میں معروف مزاح نگار مجتبی حسین کا بھی خاکہ ہے جو ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجتبیٰ حسین کا یہ خاکہ عام خاکوں کی تکنیک سے تھوڑا ہٹ کر ہے۔ عام طور سے خاکہ نگار راست طور پر شخصیت کے مختلف پہلؤوں کو تحریر کرتا ہے لیکن مجتبیٰ حسین کے اس خاکہ میں غیور نے ایک اور فرد کو ملوث کیا ہے۔ وہ ہے ان کا اور مجتبیٰ حسین کا مشترکہ شناسا مرزا محسن امیر۔ صورتحال یہ ہے کہ غیور محسن امیر سے مجتبیٰ حسین کے بارے میں مختلف سوالات کرتے ہیں۔ محسن کے جواب میں سوالوں کی شاخین نکالتے ہیں کبھی کبھی محسن جھنجھلا جاتے ہیں اور اس طرح مجتبیٰ حسین کا خاکہ ترتیب پاتا ہے جس سے غیور حسن کی زبان و بیان پر قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔

مجتبیٰ حسین کے خاکے، ادھورا خاکہ، کا یہ حصہ ملاحظہ کیجئے۔

کیا کہا مرزا صاحب مجتبیٰ صاحب پتلون اور بش شرٹ پہنتے ہیں۔ کیسے یقین کرلوں یار، یہ حیدرآبادی تہذیب کے پروردہ جب تک شیروانی پہن کر نیچے سے اوپر گلے سے تمام بٹن نہ لگا لیں، اپنی برہنگی کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ مارے شرم کے غیر کفو کے سامنے تک نہیں آتے۔

غیور حسن نے امروہہ کی جن ہستیوں کے خاکے لکھے انہیں ہمیشہ کے لئے یادگار بنا دیا۔ غیور حسن کی زبان نہایت شستہ با محاورہ اور روز مرہ کی ہوتی ہے۔ حلیہ بیان کرنے میں وہ لفظوں کا ایسا کمال دکھاتے ہیں کہ پوری کی پوری شخصیت پڑھنے والے کی آنکھوں کے آگے ٹہر جاتی ہے۔ مثال کے طور پر امروہہ کی مشہور اور باوقار شخصیت حکیم کلب علی شاہد کا حلیہ کچھ اس طرح بیان کیا۔

دبلا پتلا جسم ننھا منا بے آب ورنگ چہرہ۔ ستا ستا سا رنگ۔ کبھی گورا رہا ہوگا مگر اب تو خاکستری ہے۔ جیسے ان کے دودھیا شباب میں افکار کی مٹی ملا دی ہو۔ کھڑی ستواں ناک۔ طوطے کی طرح آگے کی طرف کسی قدر خمیدہ۔ پتلے پتلے نازک سے لب۔ لانبے لامبے سرمئی رنگ کے چھدرے بال۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں جیسے رنگین ماضی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئی ہوں۔ اور ان کے کونوں پر فکر کی ان گنت جھریاں۔ یہ ہیں حکیم کلب علی شاہد صاحب۔


امروہہ کا یہ اکلوتا خاکہ نگار13 نومبر1987 کو لمبی بیماری کے بعد اپنے فرزندوں سے اپنے ادھورے کام مکمل کرنے کی وصیت کرکے اس دنیا سے سدھار گیا۔

غیور حسن کے ادبی قد کا اندازہ لگانے کے لئے اردو کے ممتاز ادیب، ناقد، محقق اور مصنف پروفیسر نثار احمد فاروقی کا ان کی موت پر یہ اظہار تعزیت ہی کافی ہے کہ امروہہ میں اس وقت ان کی ذات علمی اور ادبی مذاق کی ایک علامت بنی ہوئی تھی، غیور حسن ان قلمکاروں میں شامل ہیں جنہیں کسی سرکاری انعام و اکرام سے تو نہیں نوازہ گیا لیکن اہل وطن نے انہیں اپنی محبتوں سے بہت نوازہ۔ ان کے تحریر کردہ خاکے پڑھ کر آج بھی لوگ بے ساختہ مسکرا اٹھتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔