آہ! نعیم کوثر... اپنی طرز کا اکیلا فکشن نگار نہیں رہا... جمال عباس فہمی

نئے سال کے پہلے ہی ہفتے میں اردو ادب کو اپنی طرز کا اکلوتا فکشن نگار بچوں کا ادیب اور صحافی نعیم کوثر داغٖ مفارقت دے گیا۔ وہ 6 جنوری کو 87 برس کی عمر میں اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے۔

<div class="paragraphs"><p>نعیم کوثر</p></div>

نعیم کوثر

user

جمال عباس فہمی

8 ماہ کے اندر اردو ادب کو دو بڑے نقصانات برداشت کرنا پڑے اور نئے سال کی ابتدا بھی اردو ادب کے لئے خوش کن نہیں رہی۔ جون 2022 میں اردو کی قد آور ہستی گوپی چند نارنگ نے 91 برس کی عمر میں ملک عدم کی راہ لی اور نئے سال کے پہلے ہی ہفتے میں اردو ادب کو اپنی طرز کا اکلوتا فکشن نگار بچوں کا ادیب اور صحافی نعیم کوثر داغٖ مفارقت دے گیا۔ نعیم کوثر 6 جنوری کو 87 برس کی عمر میں اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے۔

23 دسمبر 2022 کو نعیم کوثر کو برین ہیمریج ہوا۔ اسپتال میں زیر علاج رہے لیکن ماضی کی طرح اس بار انہیں اسپتال سے زندہ گھر واپس آنا نصیب نہ ہوا۔ نعیم کوثر 1949 سے مسلسل لکھ رہے تھے اور خوب سے خوب تر لکھ رہے تھے۔ ان کی وفات در حقیقت ایک ایسے قلمکار کی وفات ہے جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کئے بغیر اردو ادب تخلیق کر رہا تھا۔ نعیم کوثر فکشن، بچوں کے ادب اور صحافت کے حوالے سے وہ نام ہے جس نے زندگی کی حقیقتوں اور تلخ سچائیوں کو قلم بند کیا۔ ان کا اپنا طرزنگارش تھا۔ اپنا اسلوب تھا۔ اپنا انداز تھا۔ نعیم کوثر کے افسانوں کے سات مجموعے اب تک شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے ادبی سفر اور تخلیقی شعور اور قلمی بصیرت پر کچھ لکھنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔


15 دسمبر 1936 کو مدھیہ پردیش کے ضلع رائے سین کے بیگم گنج میں اردو کے بلند قامت ادیب سید علی کوثر چاند پوری کے یہاں جس فرزند کی ولادت ہوئی اس کا نام سید محی الدین اختر رکھا گیا۔ یہی سید محی الدین اختر اردو ادب میں نعیم کوثر کے نام سے معروف ہوئے۔ انہوں نے 1953 میں اجمیر بورڈ سے میٹرک اور 1954 میں آگرہ یونیورسٹی سے بی کام کیا۔ نعیم کوثر مدھیہ پردیش ہاؤسنگ بورڈ بھوپال میں ایڈ منسٹر یٹر افسر کی پوسٹ سے 1994 میں سبکدوش ہوئے۔

نعیم کوثر نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں اس میں ادب کی خوشبو رچی بسی ہوئی تھی۔ باپ کوثر چاند پوری افسانہ نگار اور ادیب تھے۔ نعیم کوثر کی رگوں میں باپ کے خون کے ساتھ ساتھ اردو ادب بھی بطور وراثت منتقل ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچپن میں ہی ان کے اندر ادبی شعور پیدا ہو گیا تھا۔ انہوں نے محض بارہ برس کی عمر میں قلم سمبھال لیا تھا۔ جس عمر میں بچے دادی نانی سے سونے سے پہلے کہانیاں سنتے ہیں اس عمر میں نعیم کوثر نے پہلی کہانی "یتیم بچے کی عید" لکھی تھی جو 1948 میں دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’نو نہال‘ میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں بچوں کے لئے ادب تخلیق کیا۔ 1949 میں بچوں کے لیے ناولٹ ''ہونہار شہزادہ'' لکھا جسے حیدر آباد کے ایک پبلشنگ ہاؤس نے کتابی شکل میں شائع کیا۔ انہوں نے بچوں کے لئے تقریریں بھی لکھیں جو 1950 میں الہ آباد سے کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔ بچوں کے لئے انہوں نے درجنوں کہانیاں لکھیں جو بچوں کے لئے مخصوص مختلف رسائل اور جرائد میں شائع ہوئیں۔ لیکن افسوس کہ بچوں کے حوالے سے نعیم کوثر نے جو ادب تخلیق کیا وہ کسی مجموعے کی شکل میں محفوظ نہیں کیا جاسکا۔ اردو میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے قلمکاروں کا فقدان ہمیشہ رہا ہے۔ اگر نعیم کوثر کے ذریعے تحریر کیا گیا اطفالی ادب کتابی شکل میں موجود ہو تو اطفالی ادب کی کمی کسی حد تک پوری کی جا سکتی ہے۔


 نعیم کوثر نے باقاعدہ طور سے افسانہ نگاری 1950 میں شروع کی اس وقت ان کی عمر چودہ برس تھی۔ ان کی پہلی افسانوی تخلیق "تشنگی" معاشرتی نوعیت کی تھی۔ اس کے بعد نعیم کوثر ساٹھ سے زائد دہائیوں تک مسلسل لکھتے رہے۔ ان کی جودَتِ طبع کا یہ عالم تھا کہ 1950 سے 2008، تک ان کے قلم سے تقریباً 650 افسانے تحریر ہوئے جن میں بیشتر ہندو پاک کے نمائندہ رسائل و جرائد میں شائع ہو کر نہ صرف عوام بلکہ مشاہیر اہل علم وادب سے داد و تحسین حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ڈرامہ نویسی میں بھی قلم کے جوہر دکھائے۔ انہوں نے معاشرتی اور اصلاحی طرز کے دس ڈرامے لکھے جو وقفے وقفے سے آل انڈیا ریڈیو کی بھوپال اردو سروس سے نشر ہوئے۔ اپنے تحریر کردہ ڈراموں میں انہوں نے صدا کاری بھی کی۔

نعیم کوثر کے ابتدائی دور کے افسانوں میں کرشن چندر کے انداز تحریر کی جھلک نظر آتی ہے لیکن بعد میں انہوں نے جو اسلوب اور طرز نگارش اختیار کیا وہ خالص ان کا تھا۔ ان کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہنے کے لئے علامتوں اور اشاروں و کنایوں کا سہارا نہیں لیتے۔ نعیم کوثر زندگی کی حقیقتوں سے آنکھیں چرانے والے اہل قلم نہیں ہیں بلکہ حقیقت سے آنکھیں دو چار کرنے والے قلمکار ہیں۔ ان کو اپنی کہانیوں کے موضوعات اور کرداروں کے لئے زیادہ دوڑ دھوپ نہیں کرنا پڑتی۔ موضوعات اپنے تمام تر کہانی پن کے ساتھ ان کے سامنے آموجود ہوتے تھے اور وہ نہایت چست و درست انداز میں، شیریں اور با محاورہ زبان میں انہیں سپرد قرطاس کر دیا کرتے تھے۔


ان کے افسانوی مجموعے ''اقرار نامہ'' کے افسانے 'ٹھکانہ' کا ایک مختصر سا اقتباس پڑھئے اور زبان کا مزہ لیجئے۔

'' شاہ جی کے چہرے اور آنکھوں میں دوسرے فقیروں جیسا عیار پن نہیں تھا۔ تقدیر کی بے چارگی اور دلوں میں ہمدردی پیدا کرنے والا درد تھا۔ مسجد میں آنے جانے والے خود ہی رحم کھا کر اس کے کٹورے میں پیسے ڈال دیا کرتے۔ آج تک کسی ایرے غیرے فقیر کی ہمت نہ ہوئی کہ شاہ جی کے ٹھکانے کے قریب بھی پھٹک سکے۔ وہ سیڑھی اس کے لئے برکتوں کا خزانہ ہی نہیں اس کے دل کی دھڑکن تھی۔ منہ سے صدا کئے بغیر دن میں دو بار ریزگاری سے بھرا کٹورا گود میں رکھی ہوئی تھیلی میں خالی کرکے اللہ کا شکر بجا لاتا۔''

ناقد اور معروف فکشن نگار اسلم جمشید پوری کا ان کی فکشن نگاری کے حوالے سے کہنا ہے کہ ''نعیم کوثر موجودہ اردو افسانے کی آبرو ہیں۔ ان کے افسانوں میں عام انسانوں کی خوشی و غم، سماج کا نشیب و فراز، ظلم کے خلاف احتجاج، جانوروں کی نفسیات، نوجوانوں کے مسائل، بے روز گاری، دہشت کردی جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ انہوں نے کئی یاد گار کردار اردو افسانے کو دیئے ہیں۔''


ان کے تحریر کردہ افسانوں کے سات مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ 'خوابوں کا مسیحا'، 'کال کوٹھری'، ہندی افسانوں کا مجموعہ ''رگ جاں کا لہو''، 'اقرار نامہ'، ''اگنی پریکشا''، ''آخری رات'' اور 'کہرے کا چاند' فکشن کے با ذوق پڑھنے والوں نے کافی پسند کئے۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر ان کی فکری رو اور رجحان کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے افسانوں سے صاف جھلکتا ہے کہ نعیم کوثر فرقہ وارانہ ہم اہنگی۔ میل مروت، ایثار و قربانی اور آپسی بھائی چارے کے پیامبر ہیں۔ ان کے بیشتر افسانے ان ہی جذبات و احساسات کے ترجمان ہیں۔ نعیم کوثر قدروں کے بکھراؤ سے بہت افسردہ خاطر رہتے ہیں۔ ان سے انسانی اقدار کا انہدام برداشت نہیں ہوتا۔ وہ بڑی سفاکی سے اس رجحان کے خلاف حملہ آور ہوتے ہیں۔ رومانیت اور جذباتیت نعیم کوثر کے افسانوں میں کسی نہ کسی صورت میں جلوہ گر رہتی ہے۔ سماجی تانے بانے کا بکھرنا بھی نعیم کوثر کو بہت اکھرتا ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ عصری حسیت کے تقاضوں کے تحت بے باباکانہ انداز سے فکشن تخلیق کرنے والے اس قلمکار کو اردو ادب کے ناقدوں نے قابل اعتنا نہیں گردانا، تنقید کے حوالے سے نعیم کوثر پر کوئی وقیع کام نہیں ہوا۔ مردہ پرست مزاج ناقدوں کو نعیم کوثر کی تخلیقات میں ان کے جیتے جی تو کچھ نظر نہیں آیا شاید پس مردن اردو کے بڑے بڑے نام نہاد ناقدوں کو نعیم کوثر کی فکشن نگاری میں کوئی حسن تخلیق نظر آجائے۔ البتہ اقبال مسعود نے نعیم کوثر کی افسانہ نگاری کا بہت گیرائی اور گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے ''نعیم کوثر کی افسانوی کائنات'' کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔

نعیم کوثر صحافت میں بھی قلمی طور سے سرگرم رہے۔ 1959 میں انہوں نے بچوں کا ماہانہ رسالہ ''جگنو'' بھوپال سے شائع کیا۔ 2001 میں "صدائے اردو" جیسا ادبی اور معیاری پندرہ روزہ بھوپال سے جاری کیا جو دس سال کا سفر طے کرنے کے بعد دم توڑ گیا۔ "صدائے اردو" پر لبیک کہنے والے قارئین ملک کے چھوٹے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ امریکہ، انگلینڈ، ماریشس اور پاکستان تک کے اردو نواز حلقوں میں پھیلے ہوئے تھے۔ نعیم کوثر کی ادبی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے 2018 میں انہیں اعزاز سے نوازہ۔ بین الاقوامی اردو تحریک نے انہیں مظفر حنفی انٹر نیشنل ایوارڈ سے سرفراز کیا۔


نعیم کوثر اس فانی دنیا کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ، دو بیٹیوں ایک فرزند اور نواسوں نواسیوں اور پوتی کے ساتھ ساتھ افسانوں کے سات مجموعے اور متعدد غیر طبع شدہ افسانے شامل ہیں۔ نعیم کوثر نے طبعی عمر تو87 برس پائی لیکن ان کی ادبی عمر کا سلسلہ بہت دراز ہے جو بالخصوص فکشن نگاری کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اور پختہ ہوتی رہے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔