2022 کا اہم فیصلہ، معذوروں کے حقوق کے تعلق سے دہلی ہائی کوٹ کا تاریخی فیصلہ

بیمہ کمپنیاں پالیسی جاری کرتے وقت اپنے مالی فائدے کا پہلو دھیان میں رکھتی ہیں۔ بیمہ کمپنیاں 2016 اور 2020 کے ضابطوں کو پوری طرح نظر انداز کر دیتی ہیں جو معذوروں کو ہیلتھ کور مہیا کرانے کے تعلق سے ہے۔

<div class="paragraphs"><p>معذور، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

معذور، تصویر آئی اے این ایس

user

جمال عباس فہمی

ملک میں جسمانی طور سے معذور افراد کے تعلق سے لوگوں کا رویہ بڑا غیر انسانی اور غیر ہمدردانہ ہے۔ معاشرے میں بھی معذور لوگوں کو برابری کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ بہت ہوا تو انہیں رحم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سرکاری نیم سرکاری اور نجی ادارے بھی معذوروں کو ان کا حق دینے میں آنا کانی کرتے ہیں۔ بیمہ کمپنیوں کو بس اپنے منافع کی فکر رہتی ہے۔ معذوروں کے تعلق سے وہ قوانین اور ضابطوں کو طاق پر رکھے ہوئے ہیں۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں معذور افراد کی تعداد 26.80 ملین ہے۔ جو ملک کی مجموعی آبادی کا 2.21 فیصد ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ نہ معاشرے اور نہ سرکار نے ان کی مخصوص ضروریات کا خیال رکھا اور نہ انہیں زندگی کے عام دھارے کا حصہ بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ معذوروں کو سب سے زیادہ نظر انداز جس شعبے میں کیا جاتا ہے وہ ہے بیمہ سیکٹر۔ ملک کی بیمہ کمپنیاں معذور افراد کو ہیلتھ کور دینے سے صاف ان کار کر دیتی ہیں۔ معذور فرد کتنا ہی صحت مند اور طبی لحاظ سے کتنا ہی چوکس کیوں نہ ہو بیمہ کمپنیوں کے پاس اس کے لئے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ جبکہ معذور اور غیر معذور کے درمیان امتیاز نہیں برتے جانے کے تعلق سے قوانین بھی وجود میں ہیں اور بین الاقوامی ظابطے بھی۔ بیمنہ کمپنیوں کی اس غیر اخلاقی حرکت کو انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ  اتھارٹی آف انڈیا(آئی آر ڈی اے آئی)  کی شہ ملی ہوئی ہے۔ آئی آر ڈی اے آئی سرکاری ادارہ ہے لیکن وہ اپنی ذمہ داریاں نہیں ادا کرتا ہے بلکہ بیمہ کمپنیوں کے سہولت کار کے طور پر کام کرتا نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے سماج کا یہ طبقہ سماجی انصاف سے محروم رہتا ہے۔


میڈیا بھی بے حسی اور غیر ہمدردی کے اسی دھارے میں بہہ رہا ہے اسی لئے اس نے 13 دسمبر 2022 کے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو نظر انداز کیا جو معذوروں کے حقوق کے تعلق سے تاریخ ساز فیصلہ ہے۔ سال 2022 جاتے جاتے ملک کے معذوروں کو ان کے بنیادی حقوق اس عدالتی فیصلے کی صورت میں دے گیا۔ یہ عدالتی فیصلہ معذوروں کا معیار زندگی بہتر کرنے میں بہت معاون ثابت ہونے وا لا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ان 26.80 ملین افراد کے لئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے جنہیں اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے بارے میں جاننے سے پہلے اس کیس کے پس منظر میں جانا ضروری ہے۔ قصہ ہے سوربھ نامی شخص کا جو انویسٹمنٹ انالسٹ اور کنسلٹنٹ کے طور پر شاندار زندگی گزار رہے تھے لیکن سن 2011 میں ان کی زندگی ایک حادثے نے بدل کر رکھ دی۔ حادثے نے 26 سالہ سوربھ کی ریڑھ کی ہڈی کو شدید نقصان پہنچایا۔ان کے جسمانی اعضا ایسے ناکارہ ہوئے کہ ان کا وجود وہیل چیئر تک سمٹ کر رہ گیا۔ وہ پوری طرح معذور ہو کر رہ گئے۔ حادثے سے پہلے کبھی انہوں نے اسپتال کا منھ تک نہیں دیکھا تھا۔

انہوں نے کسی بیمہ کمپنی سے کوئی ہیلتھ کور نہیں لیا تھا۔ تین برس کے علاج کے بعد سوربھ کی مالی حالت کمزور ہو گئی۔ طبی اخراجات کو دیکھتے ہوئے سوربھ اور ان کے والد نے بیمہ کمپنیوں سے رابطہ قائم کیا۔ لیکن درجنوں سرکاری اور نجی کمپنیوں کے دفتروں کے چکر کاٹنے پر انہیں انکار ہی سننے کو ملا۔ کوئی بیمہ کمپنی سوربھ کو ہیلتھ کور دینے کو تیار نہیں ہوئی۔ بیمہ کمپنیوں کے اہلکار یہ سنتے ہی کہ سوربھ معزور ہے پالیسی دینے سے صاف ان کار کر دیتے تھے۔ ان کی صحت کا اسٹیٹس جاننے کے لئے کمپنیاں میڈیکل ٹیسٹ تک کرانے کو تیار نہیں تھیں۔ سوربھ نے محکمہ معذورین کے چیف کمشنر کے یہاں شکایت درج کرائی۔ انہوں نے پوسٹ مین کا سا برتاؤ کرتے ہوئے وہ شکایت آئی آر ڈی اے آئی کو فارورڈ کر دی۔ آئی آر ڈی اے آئی نے بھی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور اس شکایت کو بیمہ کمپنیوں کے پاس بھیج دیا۔ بیمہ کمپنیوں نے وہی جواب آئی آر ڈی اے آئی کو بھی دے دیا جو وہ پہلے سوربھ کو دے چکی تھیں۔ آئی آر ڈی اے آئی نے وہ جواب سوربھ کو فارورڈ کر دیا۔ بیمہ کمپنیاں پالیسی جاری کرتے وقت اپنے مالی فائدے کا پہلو دھیان میں رکھتی ہیں۔ بیمہ کمپنیاں 2016 اور 2020 کے ضابطوں کو پوری طرح نظر انداز کر دیتی ہیں جو معذوروں کو ہیلتھ کور مہیا کرانے کے تعلق سے ہے۔


جسمانی طور سے معذور سوربھ نے ہار نہیں ماننے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اپنے حق کے لئے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ انہوں نے 2019 میں ہیلتھ کور دینے سے بیمہ کمپیوں کے انکار اور سرکاری ایجنسیوں کے عدم تعاون کے رویہ کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کر دی۔ عدالت میں سوربھ کی پیروی این کے آر لا آفیس دہلی کے سدارتھ ناتھ نے کی۔ سوربھ کے کیس میں دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتیبھا سنگھ نے جو جامع فیصلہ سنایا اس نے فریقین کے لئے کسی اپیل کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔

معذوروں کی صحت کی دیکھ بھال کے حقوق پر جسٹس پرتیبھا سنگھ کے تاریخ ساز فیصلہ کے مطابق صحت اور صحت کی دیکھ بھال کے حقوق معذور اور غیرمعذور افراد میں کوئی کم بیشی نہی ہے۔ معذوروں افراد بھی غیر معذوروں افراد کی ہی طرح ہیلتھ کور کے مستحق ہیں۔ معذوروں کے حقوق ایکٹ پی ڈبلو ڈی جیسے قوانین اور UN Convention on Disabilities کے تحت صحت بیمہ کا حق حاصل ہے۔ ہندستان UN Convention on Disabilities پر دستخط کر چکا ہے۔ عدالت کے مطابق جہاں تک معذوروں کی صحت بیمہ کا تعلق ہے تو ان کی آمدنی اور سماجی رتبے کو دیکھے بغیر ان کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ بیمہ کمپنیوں کو ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں جن کی مدد سے معذور افراد بھی ہیلتھ کوریج حاصل کر سکیں۔ معذوروں کے تعلق سے بیمہ کمپنیوں کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس پرتیبھا سنگھ نے کہا کہ معذوری بیمہ کے معاملے میں امتیاز کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ عدالت نے بیمہ کمپنیوں کو ان کی سماجی ذمہ داریوں کا بھی احساس دلایا۔


عدالت نے کہا کہ بیمہ کمپنیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ تمام فیصلے محض مالی فائدوں کی خاطر ہی کریں۔ اگر بیمہ کمپنیاں محض مالی فائدے کو ہی دھیان میں رکھیں گی تو ان افراد کے ساتھ شدید نا انصافی ہو گی جنہیں ان پالیسیوں کی سخت ضرورت ہے۔ عدالت نے بیمہ کمپنیو ں کے ساتھ ساتھ آئی آر ڈی اے آئی جیسی سرکاری ایجنسی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ عدالت نے کہا کہ آئی آر ڈی اے آئی خود 2016 اور 2020 میں ضابطہ وضع کر چکی ہے جس کے تحت بیمہ کمپنیوں کو معذوروں، ایڈز مریضوں اور ذہنی بیماروں کو ہیلتھ انشورنس پالیسی مہیا کرانے کا پابند بنایا گیا ہے۔عدالت نے کہا کہ آئی آر ڈی اے آئی کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ 2016 اور 2020 کے ضابطوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ سوربھ کے کیس کے تعلق سے عدالت نے آئی آر ڈی اے آئی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اس نے مسئلے کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں اور انشورنس کمپنیوں کا دفاع کیا۔

عدالت نے دو فریق بیمہ کمپنیوں کو سوربھ کی درخواست پر پھر سے غقور کرنے اور اسے ہیلتھ کور مہیا کرانے کی ہدایت دی۔ یہی نہیں بلکہ عدالت نے آئی آر ڈی اے آئی کو بھی ہدایت دی کہ معذوروں اور دیگر محروم طبقات کے افراد کو موزوں پالیسیاں مہیا کرانے کے تعلق سے تمام بیمہ کمپنیوں کی ایک میٹنگ طلب کرے اور جلد از جلد ہیلتھ پالیسیاں متعارف کرے۔ دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ دو فیصد سے زیادہ کی آبادی کے لئے گیم چینجر ہے۔ اس سے لاکھوں معذور افراد کی صحت کی دیکھ بھال ممکن ہوگی، بلکہ تمام بیمہ کمپنیوں کو اب تمام معذوروں کے لئے صحت بیمہ پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی۔ عدالتی فیصلے نے سرکاری ایجنسیوں کو بھی یہ احساس دلایا کہ سماجی ذمہ داریوں کے تئیں ان کی بے حسی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔